کوئٹہ – بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے قائداعظم یونیورسٹی کے لاپتہ طالب علم عبدالحفیظ بلوچ منظر عام پر آ گئے ہیں۔ بدھ کو ان اہل خانہ نے تصدیق کی ہے کہ حفیظ بلوچ کو جعفرآباد کی ایک عدالت میں سی ٹی ڈی حکام نے پیش کیا، جہاں ان کے بھائی ڈاکٹر رضا باجوئی نے ان سے ملاقات کی
ملاقات کے حوالے سے ڈاکٹر رضا باجوئی نے بتایا کہ انہوں نے جعفرآباد کے اوستہ محمد جوڈیشل کمپلیکس میں اپنے بھائی سے ملاقات کی، وہ صحت مند دکھائی دیے۔ عدالت میں پیشی کے بعد انہیں ڈیرہ مراد جمالی کے ڈسٹرکٹ جیل منتقل کیا گیا
پولیس کے مطابق حفیظ بلوچ کو انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دھماکا خیز مواد ایکٹ کے ایک مقدمے میں گرفتار کیا ہے اور اس کے خلاف سی ٹی ڈی پولیس کے نصیرآباد تھانہ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے
سی ٹی ڈی نصیر آباد کے تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق حفیظ بلوچ کی گرفتاری 15 مارچ کو عمل میں لائی گئی
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’مخبر خاص نے اطلاع دی کی ایک نوجوان جو کالعدم تنظیم بی ایل اے اسلم گروپ کا کارکن ہے ایک سیاہ بیگ اٹھائے مشکوک حالت میں جھل مگسی کے راستے سے جعفر آباد کی جانب پیدل آ رہا ہے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق اس اطلاع پر سیف آباد شاخ کے علاقے جعفرآباد گوٹھ محمد مٹھل مگسی پہنچ کر ناکہ بندی کی گئی۔ دوران ناکہ بندی دن دو بج کر تیس منٹ پر ایک نوجوان بیگ اٹھائے پیدل آتے ہوئے دکھائی دیا
’ان کو نہایت حکمت عملی سے قابو کیا گیا اور نام و پتہ دریافت کرنے پر انھوں نے اپنا نام عبدالحفیظ عرف حفیظ ولد حاجی محمد حسن قوم باجوئی ساکن کلی باجوئی باغبانہ خضدار بتایا۔‘
ایف آئی آر کے مطابق ’بیگ کی تلاشی لینے پر اندر دھماکہ خیز مواد اور نٹ بلٹ پائے گئے۔ ڈیجیٹل ترازو میں وزن کرنے پر دھماکہ خیز مواد کا وزن 200 گرام جبکہ لوہے کے نٹ بلٹ کا وزن 400 گرام تھا۔ اس کے علاوہ ان سے تار وغیرہ بھی برآمد ہوا۔‘
دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کے الزام میں ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا
عبدالحفیظ بلوچ کا تعلق خضدار کے علاقے باغبانہ سے ہے۔ وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں فزکس کے ایم فل کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں
حفیظ بلوچ کے رشتہ دار فاضل یعقوب نے بتایا کہ ’حفیظ بلوچ پر لگائے گئے الزامات درست نہیں کیونکہ ان پر مقدمہ مارچ میں درج کیا گیا جبکہ وہ 8 فروری کو لاپتہ ہوئے تھے اور 11 فروری کو خضدار پولیس تھانہ سٹی میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج ہوئی۔‘
ان کا کہنا تھا ’عبدالحفیظ سردیوں کی چھٹیوں میں اسلام آباد سے خضدار آئے ہوئے تھے، جہاں وہ ایک تعلیمی ادارے میں بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ 8 فروری کو انہیں چالیس سے زائد طالب علموں اور کچھ اساتذہ کے سامنے اٹھایا گیا۔‘
فاضل یعقوب کا کہنا تھا کہ خضدار اور اسلام آباد میں حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاج بھی کیا گیا۔ اسلام آباد میں ان کے ساتھی طلبہ نے تقریباً ایک ماہ تک احتجاجی کیمپ لگایا
بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے مطالبہ کیا ہے کہ حفیظ بلوچ پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے
عبدالحفیظ بلوچ کے بھائی ڈاکٹر رضا باجوئی کا کہنا ہے ’میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بھائی کے منظر عام پر آنے پر ہمارا پورا خاندان خوش ہے۔ یہ عرصہ ہمارے والدین اور خاندان پر بہت مشکل سے گزرا۔ ہم سب اذیت میں مبتلا رہے۔‘
گرفتاری ظاہر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر حفیظ بلوچ کی ایک تصویر بھی سامنے آئی ہے، جس میں وہ درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی ہے
تصویر میں حفیظ بلوچ کے بال چھوٹے ہیں اور وہ سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہیں۔ ان کے ساتھ سادہ کپڑوں میں دو دیگر افراد بھی نظر آ رہے ہیں تاہم ان میں سے صرف ایک کا چہرہ نظر آ رہا ہے
یاد رہے کہ اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالبعلم حفیظ بلوچ کے رشتہ داروں نے نہ صرف 8 فروری کو بلوچستان کے شہر خضدار سے ان کی جبری گمشدگی کا الزام عائد کیا تھا بلکہ ان کے والد کی جانب سے تھانہ خضدار میں اغوا کا مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا
ان کے والد کی جانب سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ان کے بیٹے عبدالحفیظ جنوری کے آخری ہفتے میں چھٹیوں پر اسلام آباد سے خضدار آئے تھے
ایف آئی آر کے مطابق ’وہ شام کو ایک مقامی ادارے میں بچوں کو پڑھانے جاتے تھے۔ آٹھ فروری کے روز بھی وہ بچوں کو پڑھانے کے لیے اکیڈمی میں تھے کہ وہاں سیاہ رنگ کی ایک گاڑی میں تین نقاب پوش مسلح افراد آئے۔ ان میں سے دو افراد کلاس روم میں آئے اور عبدالحفیظ کو طلبا کے سامنے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔‘
خیال رہے کہ حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران طلبہ اور پولیس کے درمیان تصادم کے بعد وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب ایڈووکیٹ اور بلوچ طلبہ پر مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا، جو بعد ازاں واپس لے لیا گیا
حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی
بدھ کو سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی کہ جمعرات کو بلوچ طلبہ کی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے ملاقات کروا کے ان کی شکایات سنیں اور جمعے تک رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں
بلوچ طلبہ کی جانب سے پروفائلنگ اور ہراسانی کی شکایات پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کسی نے بلوچ طلبہ کو ہراساں کیا تو وفاقی وزیر داخلہ براہ راست اس کے ذمہ دار ہوں گے۔‘