میڈیا زرائع کے مطابق بظاہر زبان کی پھسلن کی صورت میں وزیر اعظم نے قوم سے اپنے خطاب کے دوران، امریکا کا نام مبینہ طور پر اس خط کے پسِ پردہ ملک کے طور پر لیا لیکن پھر جلدی سے خود کو درست کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی اور ملک ہے امریکا نہیں۔
جب ڈان نے وزیر اعظم کے بیان پر تبصرہ کرنے کے لیے محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا تو ان کے ایک ترجمان نے کہا کہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے
یہ حکومت کے سربراہ کے بیان پر غیر معمولی طور پر دو ٹوک تبصرہ ہے لیکن حال ہی میں اسلام آباد سے سامنے آنے والے الزامات سے واشنگٹن میں بڑھتی ہوئی مایوسی کا اشارہ ملا ہے
تاہم محکمے نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ اس طرح کے الزامات کا امریکا اور پاکستان کے تعلقات اور امریکا میں پاکستان کے سفارتی مشنوں کے ساتھ رابطوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے
واشنگٹن میں سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے دو طرفہ تعلقات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے اور امریکی حکام پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت میں زیادہ محتاط ہو سکتے ہیں
انہوں نے وضاحت کی کہ میزبان ممالک کے سفارت خانے اور اہلکار اکثر غیر رسمی ملاقاتوں کا استعمال کرتے ہوئے وہ ’خیالات اور احساسات‘ پہنچاتے ہیں جو مناسب سفارتی ذرائع سے نہیں بھیجے جا سکتے
ایک سفارتی مبصر نے کہا کہ ’سفارت خانے سننے والی پوسٹس کی طرح ہوتے ہیں، وہ بہت سی باتیں سنتے ہیں اور اپنی حکومت کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تاکہ وہ پڑھ سکیں اور تجزیہ کریں لیکن اگر آپ میزبان ملک کے عہدیداروں کو شرمندگی کا احساس دلاتے ہیں تو وہ آپ سے بات نہیں کریں گے اور آپ کا سفارت خانہ مزید سننے کی پوسٹ نہیں رہے گا۔
ولسن سینٹر واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور کے ایک اسکالر مائیکل کوگلمین نے نشاندہی کی کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ میں دونوں جانب کے حکام کے لیے اس وقت کی پیش رفت پر نجی بات چیت میں ذاتی اور منفی اندازوں کو سامنے لانا اور شیئر کرنا کافی عام رہا ہے
پاکستانی صحافی نسیم زہرہ نے سوشل میڈیا پر مسٹر کوگل ین کے تبصروں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک امریکی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ نے سبکدوش ہونے والے پاکستانی سفیر اسد مجید خان کو اسلام آباد کے لیے " ڈیمارچ ڈیلیور کرنے”کے لیے فون کیا اور ان سے کہا کہ جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں، پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے اور اگر وہ جاتے ہیں تو پاکستان کو اس کی غلطیوں کے لیے معاف کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے اسے ایک ” اشتعال انگیز سرکاری مواصلات” کے طور پر بیان کیا جس کی ’سب کو مذمت کرنی چاہیے۔‘
جس پر مائیکل کوگلمین نے کہا کہ انڈر سیکریٹری کے علاوہ کسی اور نے یہ تبصرہ کیا ہو گا شاید ایک اسسٹنٹ سیکریٹری نے جو سفیر سے بات کرنے کا زیادہ امکان رکھتا ہے، شاید سفیر کو ان کی نئی تعیناتی کے لیے روانگی سے قبل الوداعی کال کے طور پربات کی گئی ہو