ڈونلڈ لو، وہ امریکی اہلکار جنہوں نے عمران خان حکومت کو دھمکیاں دیں

سنگت میگ ڈیسک

اسلام آباد – وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے اس بیان نے ملکی اور بین الاقوامی سیاست میں ایک بھونچال برپا کر رکھا ہے. عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف مبینہ امریکی سازش کا اندازہ انہیں مارچ 2022 کے اوائل میں واشنگٹن میں امریکی اور پاکستانی سفارت کاروں کے درمیان ایک ملاقات سے ہوا۔ یہ بھی واضح ہے کہ اس ملاقات کی بنیاد پر جو سفارتی کیبل امریکہ سے بھیجی گئی وہ پاکستان کے سفیر اسد مجید نے تحریر کی تھی

لیکن وہ امریکی اہلکار کون تھے جنہوں نے عمران خان حکومت کو دھمکیاں دیں؟

حکومت گرانے کے لیے غیر ملکی سازش کی بات کرنے والے وزیر اعظم عمران خان نے دھمکی آمیز خط کے حوالے سے پہلی بار کسی امریکی سفارت کار کا نام لیا ہے

عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی سے وزیراعظم ہاؤس میں اتوار کو ملاقات میں انہیں تفصیل سے اس مکتوب کے بارے میں آگاہ کیا

انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات پاکستان کے سفیر اسد مجید کی امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو سے ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں دونوں جانب سے گفتگو نوٹ کرنے والے اہلکار بھی موجود تھے، جنہوں نے بعد میں اس گفتگو سے اسلام آباد کو آگاہ کیا

انہوں نے کہا کہ امریکا کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسط ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے سفیر اسد مجید کے ساتھ ملاقات میں خبردار کیا تھا کہ اگر وہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے بچ جاتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین امریکی سفارتخانے کے لوگوں سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘آخر کیا وجوہات تھیں کہ جن لوگوں نے ہمیں چھوڑ دیا ان کی گزشتہ چند روز میں سفارتخانے کے لوگوں سے کئی ملاقاتیں ہوئیں’

دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ خط اصل میں سفارتی کیبل تھا جو امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار کے مطابق، ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خلاف عدم تحریک کے حوالے سے بیرونی سازش کا ذکر کیا اور کہا کہ ہمیں بیرون ملک سے لکھ کر دھمکی دی گئی اور کہا گیا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی اور عمران خان وزیر اعظم رہے تو پاکستان کو نتائج بھگتنے پڑیں گے

جلسے میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر مجمع کے سامنے لہرا دیا ‘ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی’ تاہم انھوں نے کہا کہ قومی مفاد میں وہ اس خط پر مزید بات نہیں کریں گے تاہم کوئی اگر دیکھنا چاہے تو وہ انہیں آف دا ریکارڈ دکھا سکتے ہیں

تین روز بعد عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے تناظر میں قوم سے تقریباً پچاس منٹ طویل خطاب کیا، جس میں انہوں نے اپنے خلاف مبینہ طور پر بیرون ملک تیار ہونے والی سازشوں کا ذکر کیا

اپنی تقریر میں اس موقع پر پہنچنے سے پہلے انھوں نے لمبی سانس لی اور پھر بات کرتے ہوئے کہا: ‘میں آج جو آپ کے پاس ساری بات کرنے اس لیے آیا ہوں، ابھی ہمیں آٹھ مارچ، سات مارچ کو ہمیں امریکہ نے، امریکہ نے (پھر جھینپتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ لہرایا) ایک باہر کے ملک نے، میں نام۔۔۔، مطلب میرا باہر کسی اور ملک سے ہمیں پیغام آتا ہے اور میں اس لیے آپ کے سامنے اس پیغام کی بات کرنا چاہتا ہوں اور میں اسی لیے لائیو کر رہا ہوں، کہ یہ کسی آزاد ملک کے لیے ہمیں جس طرح کا پیغام آیا ہے، یہ ہے تو وزیر اعظم کے خلاف صرف، لیکن یہ ہماری قوم کے خلاف ہے۔’

اس سے پہلے باضابطہ طور پر کسی حکومتی عہدے دار نے واضح طور پر امریکا کا نام نہیں لیا تھا۔ وزیر اعظم کی بظاہر اس ”غلطی“ کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف آراء سامنے آئیں

صحافی احتشام الحق لکھا کہ یہ ‘سلپ آف ٹنگ’ یعنی یہ غلطی ہی ان کی ساری تقریر تھی اور وہ کہنا ہی یہی چاہتے تھے

جمعرات یعنی 31 مارچ (خط موصول ہونے کے تین ہفتے بعد) کو ہی وزیر اعظم کے خطاب سے کچھ گھنٹے قبل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا، جہاں وزیر اعظم، مسلح افواج کے سربراہان سمیت اہم حکومتی عہدے دار موجود تھے اور اس ملاقات کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں بھی ‘دھمکی آمیز مراسلہ’ بھیجنے والے ملک کا نام نہیں لیا گیا تھا

بعد ازاں دو روز قبل انہوں نے پارٹی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”میں کھل کر نام لے رہا ہوں، امریکا“

لیکن اب حکومت گرانے کے لیے غیر ملکی سازش کی بات کرنے والے وزیر اعظم عمران خان نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے پہلی بار کسی امریکی سفارت کار کا نام لیا ہے

عمران خان نے اتوار کو دعویٰ کیا کہ امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو پاکستان کی حکومت گرانے کی سازش میں ملوث تھے

ڈونلڈ لو امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی وسطی ایشیا کے شعبے میں اسسٹنٹ سیکرٹری ہیں

وزیراعظم عمران خان نے پارٹی رہنماؤں سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی سفیر سے امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو نے ملاقات کی تھی

ڈونلڈ لو کون ہیں؟

سنگت میگ کی تحقیق کے مطابق ڈونلڈ لو 1992 سے 1994 کے دوران پشاور میں امریکی قونصل خانے میں پولیٹیکل افسر کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں اور اردو زبان بھی جانتے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیائی امور کے سینیئر سفارت کار مانے جاتے ہیں

امریکی وزارت خارجہ کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق ڈونلڈ لو 15 ستمبر 2021 کو جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ بنے۔ اس اسائنمنٹ سے قبل، وہ 2018 سے 2021 تک کرغز جمہوریہ میں اور 18-2015 تک البانیہ میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ البانیہ میں اپنی پوسٹنگ سے پہلے، اسسٹنٹ سکریٹری لو نے مغربی افریقہ میں ایبولا کے بحران پر محکمہ خارجہ میں ایبولا ریسپانس کے ڈپٹی کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کیا

ڈونلڈ لو ایک فارن سروس آفیسر ہیں، جنہوں نے تیس سال سے زیادہ امریکی حکومت کے لیے کام کیا ہے۔ انہوں نے بھارت میں ڈپٹی چیف آف مشن (DCM) (2010-13)، چارج ڈی افیئرز (10-2009) اور آذربائیجان میں (09-2007)، اور کرغزستان میں(06-2003) کے طور پر خدمات انجام دیں

اپنے کیریئر کے آغاز میں انہیں دفتر برائے وسطی ایشیائی اور جنوبی قفقاز امور، بیورو آف یورپین افیئرز (03-2001) میں ڈپٹی ڈائریکٹر، سیکرٹری آف اسٹیٹ (01-2000)، نئی دہلی میں پولیٹیکل آفیسر، انڈیا (2000-1997)، نئی دہلی، انڈیا (97-1996) میں سفیر کے معاون خصوصی، تبلیسی، جارجیا میں قونصلر افسر (96-1994) اور پولیٹیکل افسر پشاور، پاکستان (94-1992) اور سیرا لیون، مغربی افریقہ میں (90-1988) تک امن کور کے رضاکار کے طور پر کام کرچکے ہیں

اسسٹنٹ سیکرٹری لو کا تعلق کیلیفورنیا کے ہنٹنگٹن بیچ سے ہے۔ انہوں نے پرنسٹن اسکول آف پبلک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز، پرنسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن اور پھر پبلک افیئرز میں ماسٹرز کیا۔ وہ البانی، روسی، جارجیائی، آذربائیجانی، اردو، ہندی اور مغربی افریقی زبان کریو بول سکتے ہیں

جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کا بیورو، اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو کی قیادت میں امریکہ کی خارجہ پالیسی اور افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، قازقستان، کرغزستان، مالدیپ، نیپال، پاکستان، سری لنکا اور تاجکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات کو دیکھتا ہے

انہوں نے پاکستانی سفیر کے ساتھ ملاقات میں کیا باتیں کیں، اس کی تفصیل تو میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کی گئیں لیکن وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی پر اپنی ناپسندیدگی اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ذکر کیا تھا

عمران خان اسمبلی کی تحلیل اور عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کی اپنی حکمت عملی میں اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف یہ سازش بیرون ملک امریکہ میں تیار کی گئی۔ وہ اس سلسلے میں امریکی حکام کے مسلم لیگ ن کی لندن اور پاکستان میں قیادت سے ملاقاتوں کے بھی اشارے دے چکے ہیں

البتہ امریکی حکومت نے کسی سازش میں شریک ہونے کی تردید کی ہے، جبکہ پاکستان نے امریکی تردید کو سراسر جھوٹ قرار دیا ہے

ڈونلڈ لو پاکستان حکام کے لیے کوئی نیا نام نہیں ہیں۔ وہ اکثر پاکستانی حکام سے تعاون اور دیگر امور پر ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ وزیر خزانہ شوکت ترین سے بھی گذشتہ دنوں ملے اور پاکستان کے واشنگٹن میں سفارت خانے کی جانب سے 16 مارچ کو خواتین سے متعلق ایک ورچوئل اجلاس میں اہم مقرر بھی تھے

انہوں نے اپنے کلیدی خطاب میں ملالہ یوسف زئی اور دیگر پاکستانی خواتین رہنماؤں کے تعاون پر روشنی ڈالی۔ سفیر لو نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے

انہوں نے امریکہ کی جانب سے کیے گئے مختلف اقدامات اور امریکہ پاکستان خواتین کونسل کے قیمتی تعاون یعنی پاکستان اور امریکہ دونوں میں خواتین کو معاشی بااختیار بنانے کے لیے نجی شعبے، سول سوسائٹی اور حکومتی رہنماؤں کے وعدوں کو عملی جامع پہنانے کے لیے کام کرنے والی سرکاری اور نجی شراکت داری پر بھی روشنی ڈالی تھی

عمران خان کے کہنے پر گذشتہ ہفتے بلائی گئی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بظاہر ڈونلڈ لو کی باتوں پر غور ہوا لیکن اجلاس کے بعد جاری بیان میں بھی ان کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ اس سول و ملٹری قیادت کے اجلاس نے ڈونلڈ لو کی باتوں کو سفارتی آداب کے منافی اور تشویش ناک قرار دیا تھا

اب عمران خان نے انہیں پاکستان کا سب سے بڑا ولن بنا کر پیش کیا ہے۔ تاہم سابق پاکستانی سفیر عبدالباسط نے ایک بیان میں کہا کہ یہ واضح نہیں کہ انہوں نے اس ملاقات میں یہ گفتگو ذاتی حیثیت میں کی یا حکومت کی نمائندگی کے طور پر۔ ’سفارت کار اکثر غلطیاں بھی کرتے ہیں۔‘

دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید بھی اپنی مدت مکمل کرکے واپس اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ وہ اب نئی تعیناتی کا انتظار کر رہے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close