کیوں نہ آجائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو،
تیری چِٹھی جو کتابوں میں چُھپا رکھی ہے..
کتابوں میں چِٹھی چُھپانا، پھر اُسے چُھپ چُھپ کر پڑھنا عُشّاق کا پرانا مشغلہ ہے، مگر یار لوگ اب چِٹھی نہیں لکھتے ’واٹس اپ‘ کرتے ہیں کہ ’یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے۔‘
یوں توں پیغام رسانی کے انوکھے طریقوں نے چِٹھی کی چُھٹی کردی ہے، مگر چِٹھی اپنے مترادفات سندیس، پتر، خط، نامہ، نوشتہ، عریضہ، رقعہ، مراسلہ، مرقومہ اور مکتوب وغیرہ کے ساتھ کاروبارِ شہریاری اور زبان و بیان میں اب بھی جاری ہے
ہندوستان آنے اور چھا جانے والے فرنگیوں نے اس سرزمین سے جو کچھ دساور بھیجا، اُس میں یہاں کی مقامی بولیوں اور بھاشاؤں کے الفاظ بھی شامل تھے
واقعہ یہ ہے کہ جو گورا صاحب بھی یہاں آتا، وہ عوامی بولی ٹھولی کا کوئی نہ کوئی لفظ بھی ساتھ لے جاتا، یوں سنسکرت، ہندی، اردو اور اردو میں مستعمل عربی و فارسی الفاظ کے علاوہ تامل، تیلگو، ملیالم، کنّاڈا، مراٹھی اور گجراتی زبانوں کے قابلِ ذکر الفاظ انگلستان پہنچے اور ادبی وعوامی زبان کا جُز بن گئے
’چِٹھی‘ بھی ایسا ہی لفظ ہے، جو انگریزی میں بصورت ‘Chit’ رائج ہے، جو پرچی اور رقعہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی میں اس Chit سے ایک نیم قانونی اصطلاح کلین چِٹ (clean chit) وضع کی گئی، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کسی جرم میں مشتبہ شخص کو معافی کا ایک (عام طور پر زبانی) سرٹیفکیٹ ہوتا ہے، جس میں خامی کا امکان پایا جاتا ہے
اب لفظ ’بندھن‘ پر غور کریں، جو ہر اُس رسی، ڈوری، فیتے، کپڑے یا زنجیر کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس سے باندھنے اور جکڑنے کا کام لیا جائے، اسی رعایت سے ہتھکڑی اور بیڑی، پھر ان دونوں کی نسبت سے قید و بند بھی اس کی تعریف میں داخل ہیں
غالباً پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ سنسکرت کے بیشتر اسماء اور الفاظ کا حرفِ آخر زبر کی خفیف سی آواز دیتا ہے، مثلاً نام ’دھرمندر یا نریندر‘ اصل میں ’دھرمندرا اور نریندرا‘ ہیں۔ اس میں آخری الف اپنی آدھی آواز کے ساتھ ہے اور یہ آواز سنسکرت اور اس کے زیر اثر بعض زبانوں کے ساتھ خاص ہے
اردو دان عام طور پر الف کی اس آدھی آواز کی ادائی پر قادر نہیں۔ نتیجتاً ایسے الفاظ یا تو الف کے بغیر یا پھر الف کی مکمل آواز کے ساتھ ادا کیے جاتے ہیں
یہی کچھ ’بندھن‘ کے ساتھ بھی ہے، جو اپنی اصل میں ‘بندھنا/बांधना ‘ہے، اور انگریزی میں بصورت بنڈانا (Bandana) رائج ہے۔ ’بنڈانا‘ گردن اور سر پر باندھنے والے رومال یا سکارف کے لیے بولا جاتا ہے
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس ’بندھن‘ کی اصل ’بند‘ ہے، جو ہند اور یورپی زبانوں کی مشترکہ میراث ہے۔ یہ ’بند‘ اگر اردو اور ہندی میں روک رکاوٹ اور حبس و حوالات کے معنی دیتا ہے تو فارسی میں منہ زور دریا کے آگے ’بند‘ باندھ دیتا ہے۔
پھر یہی بند انگریزی بینڈ (band) بن کر کتنی ہی چیزوں پر پابندی لگاتا ہے، تو کہیں ربر بینڈ (rubber band) میں نظر آتا ہے اور کہیں بصورت بینڈج (bandage) زخموں کا مداوا بن جاتا ہے
گوجر خان ضلع پنڈی کا ایک چھوٹا سا شہر ہے، اس شہر کے نوخیز شاعر عاصم ندیم عاصی کا کہنا ہے کہ:
اُجالوں کے کسی اوتار ہی سے جا کے پوچھو،
جسے سورج کہا جاتا ہے وہ سورج کہاں ہے..
سورج نے کہاں جانا ہے وہ تو ازل ہی سے محوِ سفر ہے۔ اس لیے ہمیں شعر میں وارد لفظ ’اوتار‘ سے سروکار ہے
سنسکرت کا ’اوتار‘ ہندو مت کی معروف اصطلاح ہے۔ اس کے لفظی معنی ’اُترنا‘ کے ہیں، جب کہ اصطلاحی معنی رشی، منی اور مہاتما کے ہیں۔ اس اصطلاح کا خاص اطلاق اُس انسان یا حیوان پر ہوتا ہے، جس کے روپ میں دیوتا اصلاح کے لیے زمین پر اُترتے ہیں
جہاں تک اس لفظ کے مجازی معنی کی بات ہے تو کسی بھی رشی یا راجا کا خاص جانشین اس کا نمائندہ یا اس کی شان کا مظہرخواہ انسان ہو یا حیوان، ’اوتار‘ کہلاتا ہے۔ پھر بعض نسبتوں سے نیک خصلت اور فرشتہ خُو بھی اس تعریف میں داخل ہے
سنسکرت کا یہ ’اوتار‘ جب فرنگی زبان پر چڑھا تو ’اواتار/ Avatar‘ ہوگیا۔ انگریزی میں اس کے معنی میں نزول (اُترنا) اور مظہر دونوں شامل ہیں
چائے چین کی سوغات ہے، جس کے پلانے اور پھیلانے کا سہرا انگریزوں کے سر ہے۔ لفظ چائے کی اصل چینی زبان کا لفظ چا (茶/Chá) ہے، جو پنجابی میں اپنی اصل کے مطابق ’چا‘ جب کہ اردو میں بصورت ’چائے‘ برتا جاتا ہے۔ پھر یہی ’چا‘ فارسی میں ’چای‘ ہوا تو عربی میں ’شاي‘ پکارا گیا
چینی زبان ہی میں اس چائے کا ایک تلفظ ٹی (té) بھی ہے، جو درحقیقت انگریزی tea، فرانسیسی thé اور جرمن زبان کے Tee کی اصل ہے
انگریزی میں اس ٹی (Tea) نے ٹی پوٹ، ٹی کپ، ٹی کوزی اور ٹی پارٹی جیسی مختلف تراکیب کو جنم دیا۔ اس ’ٹی سیرز‘ میں ترکیب ٹیپائے (Teapoy) بھی شامل ہے، جس کے متعلق عام خیال ہے کہ یہ خاص چائے کی میز کو کہتے ہیں۔ مگر جو احباب لفظوں کی بُنت پر نظر رکھتے ہیں، وہ اس بات کو خیالِ خام قرار دیتے ہیں
ٹیپائے (Teapoy) کی اصل ہندی کا ’تیپائی‘ ہے، جو چار پائی سے محض ’ایک قدم‘ پیچھے ہے۔ یہ ایک چھوٹی میز ہوتی ہے، جو اپنے تین پایوں کی نسبت سے ’تیپائی‘ کہلاتی ہے۔ انگریزی میں ٹیپائے بن جانے والے اس لفظ کے جُز اول ’ٹی‘ سے دھوکا ہوا، یوں اس ٹیپائے (Teapoy) کو چائے پینے کے لیے خاص سمجھا گیا
اوپر چارپائی کا ذکر ہوا ہے، شہری زندگی میں تیزی سے معدوم ہونے والا یہ سادہ سا فرنیچر بھی اپنے چار پایوں کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ لفظ ’چارپائی‘ معمولی تبدیلی کی ساتھ ’چارپائے/charpoy‘ ہوا اور انگریزی زبان کا جُز بن گیا۔ تاہم اس کے معنی میں ’تیپائی‘ کی طرح کوئی ابہام نہیں ہے
اس ٹیپائے اور چارپائے کا ہم آواز ایک لفظ ’سیپائے/ Sepoy‘ بھی ہے۔ اس کی اصل فارسی کا ’سپاہی‘ ہے، انگریزی میں یہ انہیں معنی میں استعمال ہوتا ہے، تاہم آغاز میں ’سیپائے/ Sepoy‘ کا اطلاق اس ہندوستانی سپاہی پر کیا جاتا تھا، جسے انگریزوں نے فوجی تربیت دی ہو۔
بشکریہ : اردو نیوز، سعودی ریسرچ اینڈ پبلشنگ کمپنی.