کراچی – دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ٹری ہاؤس (درختوں پر گھر) بنائے جاتے ہیں جو باقاعدہ مہنگے داموں فروخت بھی ہوتے ہیں۔ ٹری ہاؤس اپنی مثال آپ ہوتے ہیں جن میں رہنے کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے
لیکن پاکستان میں ٹری ہاؤس بنانے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ لوگوں کو اس بات کا بھی ڈر رہتا ہے کہ اگر کبھی موسم خراب ہوا اور تیز آندھی آئی تو اس سے ٹری ہاؤس گرنے کی صورت میں جانی نقصان بھی ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ تحفظ کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے
لیکن ایسا بھی نہیں کہ پاکستان میں کوئی شخص درخت پر نہیں رہتا ہوگا۔ ایک ایسا شخص کراچی میں موجود ہے جس نے اپنا علیحدہ گھر ایک درخت پر بنایا ہوا ہے، لیکن اس کی وجہ شوق نہیں بلکہ غربت اور مجبوری ہے
جی ہاں، سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک نوجوان ایسا بھی ہے، جس نے پرندوں کی طرح اپنا گھر درخت پر بنایا ہے
فرمان علی نامی کراچی کا ٹارزن عزیز آباد کے کوہِ نور پارک میں آم کے درخت پر گزشتہ آٹھ برس سے رہ رہا ہے
طوطوں سے کھیلتا، ٹارزن کی طرح درخت پر اترتا چڑھتا فرمان علی، جسے زمین پر چھت نہ ملی تو اس نے درخت پر اپنا آشیانہ بنا لیا
وہ اچھی زندگی کے خواب لے کر شکارپور سے کراچی آیا تھا، یہاں آ کر دن تو کیا پھرتے، اُلٹا والدین ایک کے بعد ایک کر کے انتقال کر گئے
برا وقت آیا تو اپنوں نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا، غرض مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں، اب فرمان علی اس آم کے درخت پر گزشتہ آٹھ برس سے تنہا رہ رہا ہے
فرمان علی نے بتایا ”میں بابا کے انتقال کے بعد قائد آباد میں اپنی امی کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتا تھا. میرے کام کرنے کے ساتھ امی بھی سلائی کڑھائی سے کچھ کما لیتی تھیں لیکن پھر جگر کے کینسر کی وجہ سے ان کا بھی انتقال ہو گیا
فرمان نے بتایا ”شادی میں نے پسند کی کی تھی لیکن وہ اماں کی طرح تو تھی نہیں کہ میرے لیے کام کرتی“
یوں غربت اور مالی مسائل کی وجہ سے اس کی بیوی ساتھ نہ نبھا سکی اوراسے چھوڑ کر اپنے رشتے داروں کے پاس چلی گئی
فرمان نے اپنے ٹری ہاؤس میں عام گھریلو ضرویات جیسی چیزوں کا بھی بندوبست کیا ہوا ہے
گھر میں ایک چولہا بھی بنایا ہوا ہے جس میں وہ کھانا بنا کر کھاتا ہے. ہاتھ منہ دھونے کے لیے واش بیسن، پانی کی ٹنکی، سونے کے لیے بستر، لائٹ کا کنکشن اور کچھ دیگر سہولتیں تو ہیں مگر درخت کی چار ٹہنیوں پر قائم چھوٹی سی جھونپڑی میں بھلا کیا کچھ سما سکتا ہے
فرمان نے بتایا کہ لائٹ اور موبائل چارج کرنے کے لیے ایک ‘محلے دار’ نے اسے بجلی کا کنکشن فراہم کیا ہوا ہے
نوجوان فرمان علی گاڑیاں صاف کر کے اتنی رقم کما لیتا ہے کہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہو سکے، محلے والے بھی اس کا ساتھ نبھاتے ہیں
فرمان نے بتایا ”وہ سامنے مسجد ہے، اللہ کو سجدہ کر کے یہاں آتا ہوں، بیماریوں اور پریشانیوں سے بھی دور رہتا ہوں اور پرندوں سے باتیں کرتا ہوں. یہاں کووں کی لائن لگی رہتی ہے. کوے آتے ہیں کہ کب فرمان کھانا کھانے بیٹھے اور ہم زبردستی اس سے کھانا چھین کر بھاگیں. بہت اچھی اور سکون کی زندگی گَر رہی ہے“
انسانوں کے بجائے کووں سے دوستی کیوں؟ اس سوال پر فرمان نے ایک شعر پڑھ کر جواب دیا ”یہ مطلب کی دنیا ہے اس لیے چھوڑ دیا انتظار کرنا، جب راتیں گزر جاتی ہیں تو زندگی بھی گزر جائے گی“
فرمان علی ایک منفرد صلاحیت کا مالک بھی ہے، وہ لڑکی کی آواز بنا کر فون پر بات کرنے کا ٹیلنٹ بھی رکھتا ہے. وہ اپنے اس ٹیلنٹ سے عائشہ ملک بن کر اکثر شرارتیں بھی کرتا رہتا ہے
مچھر اور مکھیاں تو فرمان کو بے آرام کرتی ہی ہیں، لیکن اسے بارشوں سے ڈر لگتا ہے کیوں کہ گزشتہ بارشوں میں وہ بے گھر ہو گیا تھا
مصائب کے باوجود فرمان علی مطمئن ہے کہ زندہ رہنے کے لیے اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑتا
فرمان نے کہا ”کوئی بہتر ملازمت مل جائے تو وہ زندگی کو کچھ بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کرے گا.“
فرمان کا کہنا ہے ”کبھی اللہ کی ناشکری نہ کریں ، جو آپ کو میسر ہے، اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور خوش رہیں“