میڈیا رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کے ملک کے بطور نئے وزیر اعظم انتخاب پر تبصرہ کرنے کے سوال پر امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے میڈیا سے بات کرتے ہو ئے بتایا کہ ہم پاکستان میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں
رواں ہفتے عمران خان کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخلی اور قائد حزب اختلاف کے نیا وزیراعظم بننے کے حوالے سے نشاندہی پر انہوں نے کہا کہ امریکا کی پاکستان کے اندرونی عمل پر کوئی پوزیشن نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کوئی تبصرہ کرنا پسند نہیں کرتا
ترجمان نے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس نے ہمیشہ ایک خوشحال اور جمہوری پاکستان کو امریکی مفادات کے لیے اہم سمجھا ہے اور یہ مؤقف برقرار ہے۔
ادھر امریکا کی ایک معروف ادارے فارن پالیسی نے نوٹ کیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی اقتدار بے دخلی کے باوجود یہ ان کی آخری اننگز نہیں ہے۔
عالمی شہرت یافتہ پاکستانی امریکی ماہر اقتصادیات عاطف میاں نے نشاندہی کی کہ عمران خان کی حکومت کو 2018 میں ایک کمزور معیشت وراثت میں ملی اور وہ پائیدار ترقی پر توجہ دینے کے بجائے اپنی اقتصادی پالیسی میں ’معمولی شارٹ کٹس اختیار کرنے کی راہ پر نکل پڑی
سابق وزیر اعظم نے الیکشن میں کامیابی کے بعد عاطف میاں کو اقتصادی مشیروں کی ٹیم میں شامل کیا تھا لیکن بعد میں انہیں باہر کر دیا تھا، عاطف میاں پرنسٹن اسکول آف پبلک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز میں سینٹر فار پبلک پالیسی اینڈ فنانس کے سربراہ ہیں۔
ایک ٹوئٹر تھریڈ میں عاطف میاں نے عمران خان حکومت کی ناکامی کی اہم وجوہات پر روشنی ڈالی
انہوں نے لکھا کہ اوسط آمدنی میں صفر اضافہ ہوا اور پاکستان کبھی بھی ادائیگی کے توازن کے بحران سے نہیں نکل سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ نے اس بحران کو عارضی طور پر مہلت دی کیونکہ تیل کی درآمدات اور ملکی طلب وبائی امراض کی وجہ سے سکڑ گئی تھی لیکن وبائی امراض میں کمی کے ساتھ پاکستان ایک بار پھر شدید مشکلات کا شکار ہے
ان کے مطابق بڑی ناکامی پاکستان کے میکرو چیلنجز کو سمجھنے میں ناکامی تھی اور نوٹ کیا کہ پی ٹی آئی حکومت کو کرنسی کا بحران وراثت میں ملا جو پہلے ہی مہینوں سے چل رہا تھا، اس کے باوجود نئی حکومت نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور احمقانہ اسکیموں سے قیمتی وقت اور ذخائر ضائع کیے گئے