ریڈیو پاکستان: ’یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا‘

حسنین جمال

ریڈیو پاکستان کے ایک سابق نیوز ڈائریکٹر بھلے وقتوں میں زراعت کا پروگرام کیا کرتے تھے

دو ڈھائی سال وہ روزانہ سٹوڈیو پہنچتے اور لال بتی جیسے ہی سگنل دکھاتی ان کا پروگرام شروع ہو جاتا

مالیہ معاف، آبیانہ معاف، زرعی قرضوں کی اقساط نرم، زرعی پیداوار بڑھانے کے سارے اقدامات پورے، شمالی علاقہ جات میں زیتون کی کاشت کے لیے قلموں سے لے کر جنوبی پنجاب کو سورج مکھی کی فراہمی تک جو جو چیز حکومت وقت نے رتی برابر کی ہوتی، یہ اسے پہاڑ بنا کر بتا دیتے

پروگرام فٹ جا رہا تھا کہ ایک صبح انہیں عجیب سا پیغام ملا…

نہا دھو کے دفتر کے لیے تیار ہو کر جب مقررہ وقت پر وہ پہنچے تو انہیں کہا گیا کہ آج سے آپ نے پچھلے ڈھائی سال کے دوران جتنی زرعی پالیسیاں تھیں، ان کے خلاف بولنا ہے اور سامعین کو بتانا ہے کہ محکمہ زراعت نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا اور کسانوں کے پلے ککھ نہیں رہ گیا۔ فصلیں تباہ ہیں، بدحالی ہر طرف ہے اور مستقبل تاریک ہے

انہوں نے کہا کہ بھئی میں تو پہلے دن سے آج تک حکومتی پالیسیوں کا حامی رہا، اب ایک دم ایسے کیسے سب کچھ الٹ دوں، لوگ کیا کہیں گے؟

جواب ملا: ’آپ ساری پالیسیوں سے واقف ہیں، اس لیے آپ سے بہتر کون ان پر تنقید کر سکتا ہے؟ نیا بندہ آئے گا تو مہینہ دو مہینہ سمجھنے میں لگا دے گا۔ چلیں اسٹوڈیو اور ہو جائیں شروع۔‘

آپ اگر ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ پر 9 اپریل 2022 کو گئے ہوں اور پھر آج یعنی 11 اپریل 2022 کو ایک چکر مار لیں ،تو بہترین اندازہ ہو جائے گا کہ اگلے دن پروگرام کیسا ہوا ہوگا

ملازم کی مجبوری ہوتی ہے، جو مالک کہے گا، وہی ہوگا…

پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان سرکاری ادارے ہیں، لیکن جس طرح ایک ہی دن میں ان کا نقشہ بدلتا ہے، وہ انقلاب ہر مرتبہ سوچنے پہ مجبور کر دیتا ہے کہ یہی ٹرانزیشن پہلے دن سے معتدل مزاجی کے ساتھ نہیں چل سکتی تھی کیا؟

9 اپریل کو ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ پر شاہ محمود قریشی جگمگا رہے تھے، عمران خان کی ایک بارعب سی تصویر تھی، قاسم سوری کی مسکراہٹیں تھیں اور آج 11 اپریل کو شہباز شریف، قمر الزمان کائرہ، مریم اورنگزیب اور احسن اقبال جلوہ گر ہیں۔ یہی سارا کچھ سرکاری چینل پی ٹی وی پر بھی ہوتا آیا ہے بلکہ ہو رہا ہے۔ بقول شاعر ؎

یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا،
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا..

’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ اس معاملے میں بڑی شاندار کتاب ہے۔ اختر وقار عظیم نے پی ٹی وی 1967ع میں بطور پروڈیوسر جوائن کیا، 2003ع میں وہ پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے اور 2015ع میں یہ کتاب آئی، تو اسی کتاب سے ایک دو واقعات دیکھ لیں اور سمجھ جائیں کہ گیم کس حد تک آن ہوتی ہے

ضیا دور کی زرخیزی سے ہم سب واقف ہیں۔ پی ٹی وی نے بھی وہی وقت دیکھا، جو ساری قوم دیکھ رہی تھی۔ ملازمین معمولی باتوں پر کھڈے لائن لگا دیے جاتے تھے، اختر وقار عظیم کی بھی ایک دن باری آ گئی۔ دفتر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ معطل ہیں۔ وہ اس وقت کھیلوں کے پروگرام کے پروڈیوسر تھے، انہیں سمجھ نہیں آئی کہ گڑبڑ ہوئی کیا ہے۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ ایک شام قبل دکھائی جانے والی کُشتی میں ایک پہلوان نے دوسرے کو اتنا مارا کہ اس کے چہرے سے خون بہنے لگا، جو صدر صاحب کی بیٹی کو ناگوار گزرا۔ ان کی شکایت پر کھیلوں کے پروڈیوسر معطل ہو گئے

ضیا دور میں ہی مشیر اطلاعات جنرل مجیب الرحمٰن تھے، ان کا بڑا دبدبہ تھا۔ ایک بارجنرل مجیب نے جب یہ کہا کہ ’بی بی سی والے کیسے اتنی اچھی اور خوبصورت فلمیں بنا لیتے ہیں؟‘ تو انہیں یادگار زمانہ جواب ملا: ’وہاں وزارت اطلاعات اور سیکرٹری اطلاعات نہیں ہوتے۔‘ جواب دینے والا بہادر کون تھا، یہ کتاب بتائے گی

ایک بار اختر وقار عظیم سیلاب کی کوریج کے لیے گئے تو ایک متاثرہ خاتون بہتے پانی کے ساتھ ساتھ کنارے پر پہنچیں تو یہ فلم بنانے لگے۔ سوچا کچھ پوچھ لیں ان سے بھی، خاتون فوراً بات چیت پر آمادہ ہو گئیں۔ ریکارڈنگ شروع ہونے سے قبل اختر وقار عظیم نے پوچھا کہ اماں کیا بات کریں گی؟ بوڑھی خاتون مسکرائیں اورجواب دیا ’پی ٹی وی ہے نا بیٹا؟ مجھے پتہ ہے، سب اچھا ہی کہنا ہے۔‘

المیہ یہ ہے کہ 1980ع کے آس پاس بھی پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان وہیں کھڑے تھے، جہاں آج ہیں۔ ٹیکنالوجی بدل گئی، ویب سائٹیں بن گئیں لیکن حالات نہیں بدلے!

بشکریہ: دا انڈپینڈنٹ اردو، عرب میڈیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close