برلن – شیزوفرینیا کے بارے میں سائنسدانوں کی سمجھ کئی دہائیوں سے ایک طرح کے بلیک باکس میں پھنسی ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ واقعی نہیں جانتے کہ دماغ کے اندر کیا ہو رہا ہوتا ہے؟ ماہرین فقط یہ جانتے ہیں کہ شیزوفرینیا ایک سنگین ذہنی حالت ہے، جس کی علامات میں فریب نظر، نفسیاتی دباؤ اور حقیقت سے لاتعلقی شامل ہیں
اس کی شرح کے حوالے سے ڈبلیو ایچ او کا ایک اندازہ ہے کہ شیزوفرینیا بیماری پوری دنیا میں تین سو میں سے صرف ایک شخص کو متاثر کرتی ہے
لیکن اس کی پیچیدگی کی وجہ سے طبی سائنس اب تک اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس سے کون متاثر ہو سکتا ہے اور اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟
برلن کے شیریٹے یونیورسٹی ہسپتال کے ایک محقق اسٹیفن رِپکے کا کہنا ہے ”شیزوفرینیا کے بارے میں ہماری معلومات صفر کے قریب ہیں۔‘‘
تاہم رِپکے اور ایک بین الاقوامی ٹیم کے دیگر افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے شیزوفرینیا کی حیاتیاتی تفہیم ( بائیولوجیکل انڈرسٹینڈنگ) میں ایک تاریخی دریافت کی ہے
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جینز کے کم از کم دس تغیرات دریافت کیے ہیں، جو کہ کسی شخص کے اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکان کو بہت زیادہ واضح کرتے ہیں
سائنسدانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اب وہ بہتر طور پر اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ شیزوفرینیا بیماری کن لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ماضی میں محققین کو ماحولیاتی عوامل کو مدِ نظر رکھنا پڑتا تھا، جیسا کہ مریض کی خوراک یا ان کی جانب سے استعمال کی جانے والی ادویات وغیرہ
اسٹیفن رپکے تسلیم کرتے ہیں کہ جینز کے تغیرات کی دریافت سے شیزوفرینیا کے مریضوں کی تشخیص ابتدائی دور میں کرنا تو آسان نہیں ہوگا، تاہم اس سے سائنسدان یہ جان سکیں گے کہ مریض کو کتنا خطرہ ہے اور دوا کے ذریعے بیماری کے علاج کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے
شیزوفرینیا کے لیے دوائیں موجود ہیں لیکن اس کی اصل وجہ ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ لیکن اب محققین اس بارے میں مزید جانتے ہیں کہ دماغ میں شیزوفرینیا کے حالات کیسے پیدا ہوتے ہیں
اس حوالے سے حال ہی میں دو مطالعات شائع ہوئے ہیں، جن میں اس بیماری کا جینیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مختلف زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک مطالعہ سائیکائٹرک جینومکس کونسورٹیم کی طرف سے کروایا گیا اور اس کی سربراہی برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی کے سائنسدان کر رہے ہیں. انہوں نے پورے جینوم کی چھان بین کر کے ایک بہت وسیع نقطہ نظر اختیار کیا ہے
شیزوفرینیا کے تقریباً ستتر ہزار مریضوں اور دو لاکھ چوالیس ہزار تندرست افراد کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا گیا۔ اس طرح انہوں نے جینوم کے تقریباً تین سو حصے دریافت کیے، جن میں اس بیماری کا خدشہ تھا۔ انہوں نے ایک سو بیس ایسے جینز دریافت کیے، جن میں اس بیماری کے ہونے کے خدشات واضح طور پر موجود تھے
دوسرے مطالعے نے ایک مختلف نقطہ نظر اختیار کیا، لیکن نتائج نیوران اور سائناپسس کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں، جو کسی شخص کے شیزوفرینیا کے خطرے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا انعقاد اسکیما ٹیم نے کیا، جس کی قیادت براڈ انسٹیٹیوٹ آف ایم آئی ٹی اینڈ ہارورڈ نے کی تھی۔ محققین نے نایاب تغیرات کے ساتھ دس جین دریافت کیے، جو کسی شخص کے شیزوفرینیا کے خطرے کو بڑھاتے ہیں اور بائیس مزید ایسے جو اس بیماری کے ہونے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں
عام طور پر کسی بھی شخص کا اپنی زندگی میں شیزوفر پیدا ہونے کا تقریباً ایک فیصد امکان ہوتا ہے۔ لیکن اگر ان افراد میں ان میوٹیشن میں سے ایک بھی موجود ہے، تو ان کو یہ بیماری لاحق ہونے کے امکانات 20 سے 50 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں
شیزوفرینیا کے اثرات مریضوں میں عموماً ادھیڑ عمر میں ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔ محققین اس بیماری کے ماحولیاتی پہلو کا مطالعہ بھی کر رہے ہیں ۔ ان کے مطابق ایک شخص کی جائے پرورش، نوعمری میں نشہ آور اشیاء کا استعمال اور دورانِ حمل غذائیت ایسے عوامل ہیں، جو اس عارضے کی نشوونما میں کردار ادا کر سکتے ہیں
اگرچہ سائنسدان جانتے ہیں کہ شیزوفرینیا 60 سے 80 فیصد موروثی ہے، لیکن وہ اس بیماری کے جینیات کے بارے میں بہت کم سمجھتے ہیں۔ لیکن رپکے کے مطابق ایسا صرف شیزوفرینیا کی بیماری کے حوالے سے نہیں بلکہ تمام دماغی امراض جیسے بائی پولر ڈس آرڈر، بارڈر لائن پرسنیلٹی جیسے امراض میں بھی ایسی ہی پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں
اسٹیفن رپکے کے مطابق آج بھی مریض اس بیماری سے شفا کے لیے وہ ادویات استعمال کر رہے ہیں، جو 1950ع کی تحقیق پر انحصار کر کے بنائی گئی تھیں۔ دماغی عارضے کے لیے پہلی دوائی کلورپرومازین تھی، جو آج بھی مریضوں کو دی جاتی ہے۔ یہ دوائی پہلے اینستھیسیا کے طور پر استعمال کی جاتی تھی اور پھر معالجین حادثاتی طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ اس دوائی سے ذہنی امراض سے متاثر افراد کو ہلیوسینیشنز پر قابو پانے میں مدد مل رہی ہے
ریکے کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ کسی کو درحقیقت ٹوٹا ہوا ڈوپامائن ریسیپٹر ملا یا خون یا دماغ میں ڈوپامائن کی اعلیٰ سطح یا اس طرح کی کوئی چیز ناپی گئی ہو۔ یہ کوئی تحقیقی دریافت نہیں ہے، یہ محض ایک اتفاقی دریافت تھی
مگر اب سائنسدانوں کو امید ہے کہ تحقیق کی مدد سے اس بیماری کے علاج کے لیے اس سے بہتر دوائیاں بنائی جا سکتی ہیں
اس مسلسل جاری تحقیق کے بارے میں اسٹیفن رپکے کہتے ہیں ”یہ مطالعہ ان ہزاروں مریضوں کے اعتماد کے بغیر کبھی کام نہیں کر سکتا تھا، جنہوں نے ہمیں اپنی جینیاتی معلومات فراہم کیں‘‘