مین اسٹریم میڈیا پر بلیک آؤٹ اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی پکڑ دھکڑ

ویب ڈیسک

کراچی – تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ایک طرف تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو دوسری طرف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا. احتجاج میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی شرکت نے جہاں سیاسی پنڈتوں کو حیران کیا وہیں، میڈیا میں اس کے مکمل بلیک آؤٹ پر عوام بھی حیران رہ گئے. حیران کن طور پر عالمی میڈیا پر اس کی بھرپور کوریج ہوئی جبکہ ملک میں یہ مورچہ سوشل ایکٹوسٹس نے سنبھال لیا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان کے خلاف بھی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی

آج پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے اپنے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ہراساں کیے جانے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
جمعرات کو پی ٹی آئی کے رہنما علی نواز اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے گھروں پر غیرقانونی طور پر چھاپے مارے جا رہے ہیں

درخواست میں سیکرٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی اسلام آباد پولیس، آئی جی پنجاب، اور ڈی جی ایف آئی اے سائبر ونگ فریق بنایا گیا ہے

خیال رہے کہ سرکاری طور پر سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے خلاف کریک ڈاؤن کی تاحال تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
عدالت میں دائر درخواست کے مطابق ’پی ٹی آئی کارکنان کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کی خاندانوں کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘

پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ’حکمران جماعت کی ایما پر کارکنوں کے خلاف یہ کارروائیاں شروع کی گئیں۔‘

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ ’پارٹی کارکنوں کے غیر قانونی طور پر ہراساں کیے جانے روکا جائے اور سیاسی بنیادوں پر چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جائے۔‘

بدھ کو رات گئے پشاور میں منعقدہ ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے

انہوں نے اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ’اگر سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن بند نہیں کیا گیا تو آپ کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی

ایف آئی اے نے عمران خان کے حق میں بولنے والے صحافی کو گھر سے اٹھا لیا

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے نے عمران خان کی حمایت میں بولنے والے ایک اور صحافی احسن اعوان کو گھر سے اٹھا لیا ہے، لیکن ایک رات حراست میں رکھ کر چھوڑنا پڑ گیا

مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ہم نیوز کے نمائندے احسن اعوان نے اپنی ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ میں ایک صحافی ہوں اور میرا جرم صرف اور صرف عمران خان کی حمایت میں بولنا ہے

انہوں نے کہا کہ گزشتہ رات کچھ لوگوں نے مجھے میرے گھر سے اٹھایا اور نامعلوم مقام پر لے جاکر پوچھ گچھ کی، اللہ کا شکر ہے میرے خلاف قومی مفاد کے خلاف کوئی سرگرمی کا ثبوت نہیں مل سکا جس کے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا ہے

احسن عوان کی جانب سے اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے ایکسپریس نیوز کے صحافی اور ایکسپریس ٹریبیون کے مصنف رضوان احمد غلزئی نے بھی اس الزام کی تصدیق کی اور کہا کہ احسن اعوان کو گزشتہ رات ایف آئی اے کی ٹیم نے بغیر ورانٹ گھر سے اٹھایا اور ان کا موبائل فون ، لیپ ٹاپ اپنے قبضے میں لے لیا

رضوان احمد نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے نے احسن اعوان کو ایک دن تک راولپنڈی آفس میں رکھا اور جب کچھ نہ ملا تو آج شام کو انہیں چھوڑ دیا گیا، تاہم احسن کا لیپ ٹاپ ابھی بھی ایف آئی اے کی تحویل میں ہے

رضوان احمد نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ایف آئی اے مسلسل اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کررہا ہے۔

مہربخاری کا کہنا تھا کہ محفوظ رہئے۔ سینئر صحافی ٹی وی اور ٹویٹر پر دوسری پارٹیوں کے حق میں بولتے ہیں، بہت زیادہ جھکاؤ کے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں، مقصد پر رہنے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور جو ہمارے یہاں ہم نیوز کے ساتھی بھی احسن اعوان کی طرح محفوظ رہیں

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصا ف کی حکومت کے جاتے ہی وفاقی تحقیقات ایجنسی نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ورکرز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے اور درجنوں سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کوحراست میں لیا جاچکا ہے اور متعدد کو ہراساں بھی کیا جارہا ہے

دریں اثنا ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے بدھ کے روز پنجاب میں مزید چار مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا، جن پر الزام ہے کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرفی کے بعد سے ریاستی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہتک آمیز مہم میں مبینہ طور پر ملوث تھے

اگرچہ ایجنسی نے آن لائن تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے والوں کو کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں قرار دیا، لیکن پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر نے کہا تھا کہ پارٹی اپنے سوشل میڈیا کارکنوں کو ہراساں کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گی

منگل کو ایف آئی اے نے پنجاب کے مختلف علاقوں سے آٹھ ملزمان کو گرفتار کیا تھا، تاہم ان میں سے صرف ایک کو بدھ کے روز لاہور کی عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے ملزم کو دو دن کے لیے ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا

ایجنسی کے ایک تفتیشی افسر نے مشتبہ شخص شفقت مسعود کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا آرمی چیف اور ادارے کے خلاف توہین آمیز ٹویٹس شیئر کرنے کے حوالے سے کردار ثابت ہو گیا ہے

ایف آئی اے نے کہا کہ ملزم سے مزید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی چھان بین کرنا ہے ملزم کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائےتاہم عدالت نے دو روزہ ریمانڈ کی منظوری دے دی۔

ملزم کو ایف آئی اے نے منگل کو لاہور سے گرفتار کیا تھا۔

واضح رہے کہ گرفتار افراد کے خلاف متنازعہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی دفعات کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے

یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی عدم اعتماد تحریک کے نتیجے میں 10 اپریل کو عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر فوج اورآرمی چیف کے خلاف توہین آمیز مہم شروع کرنے کے بعد ایف آئی اے کا انسداد دہشت گردی ونگ حرکت میں آیا۔

ایف آئی نے عدالت میں بتایا کہ اتوار سے ٹوئٹر پر سب سے زیادہ ٹرینڈنگ والے ہیش ٹیگز تھے جو فوج، عدلیہ اور نئی حکومت کو تنقید کانشانہ بنا رہے تھے اور منگل کو ان ہیش ٹیگز کو استعمال کرنے والی ٹویٹس کی تعداد 43 لاکھ تک پہنچ گئی

فوج اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا مہم کے سلسلے میں لاہور، ملتان، فیصل آباد اور گجرات سمیت پنجاب کے مختلف حصوں سے تقریباً آٹھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے

ایف آئی اے کے ایک افسر نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔ اور گرفتار مزید ملزمان سے بھی سوشل میڈیا پر رابطوں بارے پوچھ گچھ جاری ہے مگر ابھی یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ مہم چلانے والا گروپ کہاں سے آپریٹ ہو رہا ہے اور ان کا کس سے تعلق ہے۔

پیر کو پاکستان فوج کے حکام کے اجلاس میں سوشل میڈیا پر ادارے پر کی جانے والی حالیہ تنقید کا بھی نوٹس لیا گیا تھا

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے منگل کوجاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ فورم نے کچھ حلقوں کی جانب سے فوج کو بدنام کرنے اورادارے اور معاشرے کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کے لیے حالیہ پروپیگنڈہ مہم کا نوٹس لیا ہے

گرفتار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ

تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے ایسے سوشل میڈیا کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے جنہیں نفرت انگیز مہم چلانے پر گرفتار کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری نے اپنی پارٹی کے کارکنوں اور حمایتیوں کی گرفتاری پر انہیں قانونی مدد سے متعلق رابطوں کے لیے رابطہ نمبر بھی جاری کیے گئے ہیں

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے ریسرچ ڈائریکٹر، دنوشکا ڈسانائیکے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’پاکستانی حکام کو ایسے لوگوں کو سزا دینے کے لیے سخت پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا استعمال بند کرنا چاہیے، جو محض آن لائن اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کا استعمال کر رہے ہیں۔ بہت طویل عرصے سے، یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اس قانون کو پرامن اختلاف کو کچلنے اور سیاسی مخالفت کے حامیوں کو دھمکانے کے لیے استعمال کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کسی کو محض اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے- چاہے آن لائن ہو یا آف لائن ہو۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے ریسرچ ڈائریکٹر نے کہا کہ پنجاب بھر میں گرفتار کیے گئے آٹھ افراد کو فوری اور غیر مشروط رہا کیا جائے۔ اختلافی آوازوں کودبانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنے کے بجائے پاکستانی حکام کو آزادی اظہار کے حق پر اپنا جابرانہ کریک ڈاؤن ختم کرنا چاہیے

ایمنسٹی انٹر نیشنل کے عہدیدار کے مطابق 13 اپریل کو ایف آئی اے نے پنجاب بھر سے آٹھ افراد کو گرفتار کیا۔ ایف آئی اے کی جانب سے سوشل میڈیا کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کے بعد یہ گرفتاریاں عمل میں آئیں جن کے بارے میں ایجنسی کا خیال ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف ایک متنازع مہم میں ملوث تھے

حکومت میں تبدیلی کے ساتھ ہی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ برطرف

شہباز شریف کی نئی حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ بابر بخت قریشی کو ہٹا دیا ہے، جو احتساب عدالت کے جج کے ویڈیو اسکینڈل کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف منی لانڈرنگ کیسز کی تحقیقات سے منسلک تھے

بابر بخت قریشی کی برطرفی ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب دو دیگر افسران ایف آئی اے لاہور کے سربراہ محمد رضوان اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل گوہر نفیس کو نو فلائی لسٹ میں ڈالے جا چکے ہیں

ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ چونکہ تحقیقاتی ایجنسیوں (ایف آئی اے، نیب، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ) میں تبدیلی لانا نئی مخلوط حکومت کے اہم اہداف میں سے ایک ہے، اس لیے مزید برطرفیاں/تبادلے کیے جا رہے ہیں

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق اس وقت داخلہ ڈویژن کے تحت ایف آئی اے میں خدمات انجام دے رہے پولیس سروس آف پاکستان کے بی پی ایس-20 کے افسر بابر قریشی کا تبادلہ کر دیا گیا ہے اور انہیں فوری طور اور تاحکم ثانی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے

ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کے سربراہ کے طور پر کام کرتے ہوئے بابر بخت قریشی نے اومنی گروپ کی تحقیقات کیں، پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنس تیار کیے اور سابق صدر آصف علی زرداری کی زرعی جائیدادوں کی بھی چھان بین کی، وہ ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا بھی حصہ تھے

سائبر کرائم ونگ کے سربراہ کے طور پر انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی سابق سینیٹر پرویز رشید سمیت مسلم لیگ(ن) کے کچھ رہنماؤں سے احتساب کے جج ارشد ملک کی ‘خفیہ طور پر ریکارڈ شدہ’ ویڈیو کے معاملے میں پوچھ گچھ کی تھی جسے میڈیا کو مریم نواز نے فراہم کیا تھا

بابر بخت قریشی کی زیر نگرانی ایف آئی اے نے صحافی حامد میر کے بھائی عامر میر کو بھی مبینہ طور پر ’فوج، عدلیہ اور خواتین کے خلاف‘ مواد اپنے یوٹیوب چینلز پر اپ لوڈ کرنے اور صحافی محسن بیگ کو بھی سابق وزیر مواصلات مراد سعید کی شکایت پر حراست میں لیا تھا کہ جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ محسن بیگ نے ایک ٹی وی شو کے دوران میری ساکھ کو داغدار کیا

دوسری جانب شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد طویل رخصت پر جانے کے باوجود ایف آئی اے لاہور کے سربراہ محمد رضوان کا نام سامنے نو فلائی لسٹ میں شامل کردیا گیا ہے جو مسلم لیگ (ن) کے صدر اور ان کے بیٹے حمزہ کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات کی تحقیقات کر رہے تھے

اس سے قبل شہباز شریف نے محمد رضوان کے سامنے اپنی پیشی کے دوران شکایت کی تھی کہ مؤخر الذکر نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، چونکہ محمد رضوان نے جہانگیر خان ترین کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات اور شوگر اسکینڈل میں دو میڈیا ہاؤسز کے خلاف بھی تحقیقات کی تھیں، اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی نظروں میں اچھے نہیں سمجھے جاتے

اسی طرح خواجہ آصف اور ان کے خاندان کے افراد سمیت مسلم لیگ (ن) کے تقریباً تین درجن رہنماؤں اور عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی وجہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے سابق سربراہ گوہر نفیس نئی حکومت کے ریڈار پر ہیں، گوہر نفیس کے ماتحت اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے زمینوں پر قبضے کے مقدمات میں مسلم لیگ(ن) کے کھوکھر برادران پر بھی ہاتھ ڈالے تھے، جنہیں مریم نواز کے بہت قریب تصور کیا جاتا تھا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close