فوج کے ایک افسر میجر حارث کو مارپیٹ اور تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے میں ملوث مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سلمان رفیق اور حافظ نعمان نے جمعرات کو گرفتاری دے دی
اس سے قبل پولیس نے گاڑی ٹریس کرکے لیگی رہنماؤں کے تین ملازمین کو گرفتار کیا تھا، اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا
پولیس کے مطابق واقعے کے وقت موقع پر سلمان رفیق اور حافظ نعمان موجود تھے
واقعہ کیسے پیش آیا؟
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن شہزادہ سلطان کے مطابق 13 اپریل کو فردوس مارکیٹ کے قریب سے گزرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سلمان رفیق اور حافظ نعمان کے گارڈز کی گاڑی کے میجر حارث کی گاڑی کو اورر ٹیک کرنے پر جھگڑا شروع ہوا اور دونوں طرف سے گاڑی کا راستہ روکنے کی کوشش ہوتی رہی
ڈی آئی جی کے مطابق: ’جب وہ کلمہ چوک اشارے پر پہنچے تو پچھلی گاڑی میں موجود ملازمین نے تلخ کلامی پر گاڑی سے اتر کر میجر حارث کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے ان کی حالت خراب ہوگئی، جس پر انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں طبی امداد دی گئی۔‘
میجر حارث کے والد چوہدری راشد محمود کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ’ان کے بیٹے میجر حارث افطاری کے لیے بدھ کی شام چار ساڑھے چار بجے اپنے سسرال اقبال ٹاؤن جا رہے تھے کہ فردوس مارکیٹ انڈر پاس کے قریب ڈبل کیبن لینڈ کروزر نے حارث کی گاڑی کو ہٹ کیا جس میں پانچ سے سات افراد سوار تھے۔ وہ میرے بیٹے سے بدتمیزی کرنے لگے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق: ’ان نامعلوم افراد نے طیش میں آکر حارث کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب انہوں نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو مسعود ہسپتال کے قریب رش کے باعث گاڑی رکی تو انہوں نے دوبارہ آہنی راڈ سے تشدد کیا اور جان سے مارنے کی کوشش کی تاہم وہاں موجود لوگوں نے چھڑوایا۔‘
ڈی آئی جی شہزادہ سلطان کا کہنا ہے کہ ’کیس کی سو فیصد میرٹ پر تفتیش ہوگی۔‘
ملزمان کا موقف
لیگی رہنماؤں سلمان رفیق اور حافظ نعمان نے جمعرات کی شام تھانہ گارڈن میں گرفتاری پیش کرتے ہوئے تصدیق کی کہ بدھ (13 اپریل) کی شام کلمہ چوک کے قریب گاڑی ٹکرانے کے معاملے پر جھگڑے کے دوران میجر حارث پر تشدد کرنے والے ان کے گارڈز اور ملازم تھے۔ل
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا: ’انہیں واقعے کا اس وقت معلوم ہوا جب پولیس نے گارڈز گرفتار کیا۔ ہمیں معلوم ہوا تو ہم نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ اگر وہاں موجود ہوتے تو کبھی ملازمین کو تشدد کرنے کی اجازت نہ دیتے۔‘
خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ انہیں واقعے کا افسوس ہے اور قانونی کارروائی جاری ہے۔ ’اب بھی پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں اور قانون کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ جو بھی قانون کے مطابق سزا بنتی ہے، ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے خود یہاں آکر شامل تفتیش ہونے کی درخواست کی ہے۔‘
اس واقعہ کی بازگشت جمعرات کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس میں بھی سنائی دی، جب ایک صحافی کے واقعے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے جواب دیا کہ ’واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔ غنڈہ گردی برداشت نہیں کی جاسکتی۔‘