جازان علاقہ البحا کے بعد سعودی عرب کا دوسرا سب سے چھوٹا علاقہ ہے۔ یہ یمن کے بالکل شمال میں بحیرہ احمر کے جنوبی ساحل کے ساتھ 300 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا رقبہ 11،671 کلومیٹر ہے اور 2017 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 1،567،547 نفوس پر مشتمل ہے
اس خطے میں بحیرہ احمر میں ایک سو سے زائد جزیرے شامل ہیں۔ فراسان جزائر ، سعودی عرب کا پہلا تحفظ دیا گیا محفوظ علاقہ ، سردیوں میں یورپ سے نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا گھر ہے
خطہ تین حصوں میں تقسیم ہے۔ السراوت پہاڑ اندرون ملک، جو تقریبا 3،000 3 ہزار میٹر تک بلند ہوتے ہیں۔ الہازون جنگل کا ضلع، جنگلات پر مشتمل ہے اور امیر چراگاہ کے کچھ علاقوں سے ٹوٹا ہوا ہے۔ جبکہ میدانی علاقے کافی پھلیاں، اناج (جو ، باجرہ، گندم) اور پھل (سیب ، کیلے ، انگور ، آم ، پپیتے ، بیر اور ھٹی کی اقسام) کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔ اگرچہ پہاڑوں پر آب و ہوا ‘اسیر کی نسبتاً نم گیلی آب و ہوا سے ملتی جلتی ہے ، جازان صوبے کے ساحلی علاقے تہامہ کا حصہ ہیں ، جو شاید ملک کا سب سے گرم مقام ہے ، جس کا اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 40 ° C جولائی میں اور 31 ° C جنوری میں رہتا ہے. یہاں سالانہ 75 ملی میٹر (3 انچ) سے کم بارش پڑتی ہے۔ سبیا پہاڑ اور ساحل کے درمیان مرکز میں واقع ہے
اس وقت سعودی عرب کے جازان ریجن میں آم کی فصل تیار ہوچکی ہے۔ علاقے میں اس وقت 60 اقسام کے آموں کی کاشت کی جا رہی ہے
جازانی آم مارچ کے آخر میں پکنے شروع ہو جاتے ہیں جنہیں اپریل میں مارکیٹ پہنچانے کا آغاز کیا جاتا ہے
اخبار 24 کے مطابق جازانی آم کی سب سے مقبول قسم ’التومی‘ کہلاتی ہے، جو بڑے حجم اور سرخی مائل رنگ کا حامل ہے۔ سب سے مہنگے آم کی قیمت 90 ریال فی کلوگرام تک پہنچ جاتی ہے
’سمکہ‘ اور ’تھائی لینڈی‘ آم کافی مشہور ہیں، جو فی کلوگرام 50 ریال سے شروع ہو کر 90 ریال تک فروخت کیے جاتے ہیں
علاوہ ازیں عام آموں کی قیمت 10 سے 25 ریال فی کلوگرام ہے
جازان میں آموں کی کاشت کے حوالے سے ایک کاشت کار کا کہنا ہے کہ ریجن میں انواع و اقسام کے آموں کے باغات ہیں۔ یہاں آموں کے درختوں پر فروری کے اختتام اور مارچ کے آغاز سے پھل لگنا شروع ہو جاتے ہیں
سعودی ٹیچر کی ’آم‘ سے محبت، ریٹائرمنٹ کے بعد کاشتکار بن گیا
سعودی عرب کے علاقے جازان کے رہائشی سعودی نے آم سے لگاؤ کے باعث اپنے یہاں آم کے باغات لگائے ہیں اور ایک سے تین ٹن آم کی پیداوار ہے
سعودی شہری نے کاشتکاری کا سلسلہ جازان کے ایک اسکول میں اکتیس برس تک ٹیچر کے طور پر گزارنے کے بعد شروع کیا
العربیہ نیٹ کے مطابق یحیٰی النعمی نے کہا کہ آم کی کاشت سے اسے بے حد محبت ہے۔ ایک عرصے سے آم کے باغ لگانے میں دلچسپی لیتا رہا
سعودی شہری نے بتایا کہ اکتیس برس تک ٹیچر کے طور پر کام کیا اور اس دوران آم کے باغ کا شوق بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا پورا وقت آم کے باغات کے لیے وقف کردیا
النعمی کا کہنا ہے کہ آم کے باغ لگانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا آسان کام نہیں۔ شروع میں خیال تھا کہ آم کی شجر کاری آسان عمل ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ محنت طلب بھی ہے اور خاصی لاگت بھی چاہتا ہے۔ اُنیس برس سے زیادہ عرصے سے میں آموں کے باغات سے منسلک ہوں۔ مجھے اس کا اچھا خاصا تجربہ ہوگیا ہے۔ ہمارے یہاں بھٹے، تل وغیرہ کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی رہی ہے
یحییٰ النعمی کہتت ہیں ”سب سے پہلے آم کے بارہ سو درخت لگائے تھے، جو رفتہ رفتہ بڑھتے چلے گئے۔ اب میں اپنے آم کے باغ سے روزانہ کم از کم ایک سے تین ٹن آم توڑ لیتا ہوں۔ آم کی فصل تین مہینے چلتی ہے۔“
انہوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں کئی قسم کے آم پائے جاتے ہیں۔ میرے باغ میں 23 قسم کے آموں کے درخت ہیں۔ جازان میں 60 سے زیادہ قسم کے آم پیدا ہوتے ہیں ۔ان میں ہندی، جلین، سنسیشن، سوڈانی اور زبدۃ زیادہ مشہور ہیں
انہوں نے کہا ”جازان میں آم کا کوئی باغ ایسا نہیں ہوگا جس میں ان پانچ قسموں کے آم نہ ہوتے ہوں۔ یہاں بعض کاشتکار کسی ایک قسم کے آم کے درختوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں بیرون مملکت سے بھی انواع و اقسام کے آموں کی شجر کاری کی مہم بھی چل رہی ہے۔“