پاکستان میں چین سے درآمد شدہ مشہور ’ایم جی‘ موٹرز کی درآمد کنندہ پاکستانی کمپنی کے خلاف ’انڈر انوائسنگ‘ کے پرانے الزامات کی ایک مرتبہ پھر تحقیقات کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کو ایک ماہ کے اندر رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی ہے
جبکہ دوسری جانب پاکستان میں ایم جی موٹرز برانڈ متعارف کروانے والے صنعت کار اور پشاور زلمی کرکٹ ٹیم کے چیئرمین جاوید آفریدی نے اسے حریف کمپنیوں کا حسد اور سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے پروپیگنڈہ میں ملوث افراد کے خلاف قانونی نوٹس بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے
یاد رہے پی ٹی آئی کی حکومت نے جاوید آفریدی پر "کسٹم ڈیوٹی میں غبن” کے حوالے سے تحقیقات شروع کی تھیں، تحقیقات کے بعد یہ کیس پچھلے سال کسٹم کلکٹوریٹ اور ایف بی آر نے ثبوتوں اور حقائق کی روشنی میں خارج کیا تھا، اسے موجودہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی ہدایات پر دوبارہ کھول دیا گیا ہے
اس مقصد کی خاطر ایف بی آر نے چار اعلیٰ کسٹم حکام پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے، جن میں اسلام آباد کسٹمز انٹیلیجنس و انویسٹیگیشن سے ڈائریکٹر جنرل عبدالرشید شیخ، کراچی کسٹمز ڈائریکٹوریکٹ جنرل برائے ویلیوایشن کے ڈی جی ڈاکٹر فرید اقبال قریشی، لاہور سے چیف کلیکٹر فیض احمد اور ڈیرہ اسماعیل خان کسٹم کلیکٹوریٹ سے ایڈیشنل کلیکٹر یاسین مرتضی شامل ہیں۔
ایف بی آر کے میڈیا ترجمان اسد طاہر جپہ کے مطابق یہ کمیٹی 15 مئی تک اپنی رپورٹ چیئرمین ایف بی آر کو پیش کرے گی۔ پھر چیئرمین کی اس پر آبزرویشنز کے بعد رپورٹ کو پبلک اکاؤنٹ کمیٹی میں بھیج دیا جائے گا‘
ترجمان ایف بی آر نے بتایا کہ نئی تحقیقات میں متعلقہ کیس کی پچھلی رپورٹ کو بھی مدنظر رکھا جائے گا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ اس میں کن عوامل کو سامنے رکھ کر منطقی انجام تک پہنچایا گیا تھا
روزنامہ ’مشرق‘ اخبار میں 27 اپریل کو چھپنے والی ایک خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے : ’یہ تحقیقات نہ صرف جاوید آفریدی بلکہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور سابق کسٹم رکن طارق ہدا جیسے افسران کے خلاف بھی ہوں گی، کیونکہ یہ کہا جارہا ہے کہ ان ہی افسران کے ذریعے ایم جی موٹرز کے درآمد کنندہ کو اربوں کا فائدہ پہنچایا گیا۔‘
ایم جی موٹرز امپورٹ اسکینڈل کے حوالے سے جب جاوید آفریدی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان معلومات کو غلط قرار دیا
انڈپینڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق جاوید آفریدی کا کہنا تھا: ’درپردہ عزائم پر مبنی یہ سراسر غلط معلومات ہیں، جن کا مقصد سیاسی انتقام اور بے داغ کیریئر رکھنے والے افسران کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ یہ دراصل پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی بھی ایک کوشش ہے۔‘
انہوں نے بتایا ”ایم جی گاڑیوں کی پاکستان درآمد میں کوئی ’انڈرانوائسنگ‘ نہیں ہوئی بلکہ ان کی کمپنی نے پاکستان میں دیگر برانڈز کے برعکس زیادہ ٹیکس دیا ہے۔“
جاوید آفریدی کا کہنا ہے ’ٹویوٹا رش، پروٹون، پرنس گلوری اور چنگن ایس یو ویز کو ’ڈکلیئرڈ ویلیو‘ پر درآمد کیا گیا، صرف ایم جی کی ویلیو زیادہ ہے۔ اضافی ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں ہم سے 1.1 ارب روپے کی وصولی کی گئی ہے۔‘
جاوید آفریدی نے بتایا ”صرف پچھلے ایک سال میں ہم نے 35 ارب روپے سے زائد ٹیکس دیا ہے“
واضح رہے کہ جاوید آفریدی کی کمپنی پر الزام ہے کہ انہوں نے نوے لاکھ روپے کی گاڑی انوائس میں ستاون لاکھ روپے کی ظاہر کرکے ٹیکس چوری کا ارتکاب کیا۔ جبکہ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے انہیں ایک ہزار گاڑیاں برآمد کرنے کی اجازت ملی، جبکہ انہوں نے اس کے برعکس دس ہزار یونٹس درآمد کیے
جاوید آفریدی نے مزید کہا کہ ان پر عمران خان کے منظور نظر ہونے کا الزام ہے۔ ’الزام لگانے والے یہ نہیں دیکھتے کہ میرا احتساب بھی عمران خان کے دور میں ہی ہوا اور جس میں سروخرو میں تب ہی ہوسکا جب چینی کسٹم حکام نے مجھے درست قرار دیا اور جس کا پاکستان میں ایک غیر جانبدار کمیٹی نے جائزہ بھی لیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کاروبار میں تقریباً ایک سو ملین ڈالرز سرمایہ کاری کرچکے ہیں اور باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کرکے پاکستان میں جدید، سیفٹی سٹینڈرڈ سے لیس، معیاری لیکن سستی گاڑیوں کا مشن لے کر ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے میدان میں اترے ہیں
دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید آفریدی پر سب سے بڑی تنقید کم قیمتوں کے حوالے سے ہے، لیکن وہ اس کی وجہ چین کے ساتھ ہونے والی ایک ڈیل کو قرار دیتے ہیں
انہوں نے کہا ”ہماری کمپنی کا چینی کمپنی ایس اے آئی سی (SAIC) کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے کہ وہ پاکستان میں ایم جی گاڑی کی قیمتیں عالمی قیمتوں سے کم رکھیں گے“
جاوید آفریدی نے آخر میں بتایا کہ انہیں سیاست سے دور رکھا جائے کیونکہ وہ صرف ایک کاروباری شخص کی حیثیت سے پاکستان میں ایک معیاری اور سیفٹی اصولوں پر مبنی جدید ٹیکنالوجی لانا چاہتے ہیں
دراصل معاملہ کیا ہے؟
پاکستان میں ایم جی گاڑیوں کی درآمد کے کچھ عرصے بعد بعض میڈیا رپورٹس میں درآمد کنندہ کمپنی پر ٹیکس سے بچنے کے لیے گاڑیوں کی قیمت انوائس میں کم لکھنے اور خریداروں پر زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کا الزام لگایاگیا، جس کو کاروباری اقتصادیات کی زبان میں ’انڈر انوائسنگ‘ کہتے ہیں
جب ان پر یہ الزامات سامنے آئے تو پی ٹی آئی حکومت کے دور میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایات پر ایک تین رکنی کمیٹی بنائی گئی اور ساتھ ہی یہ کیس کراچی میں قائم کسٹم کلکٹوریٹ کو بھی بھیج دیا گیا
کسٹم کلکٹوریٹ جو اس شعبے میں ایک عدالت کی حیثیت رکھتا ہے، نے درآمد کنندہ کمپنی سے تمام قسم کی دستاویزات بمع ادائیگیوں، بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات مانگ لیں، جن کی روشنی میں 15 فروری 2022 کو 28 صفحات پر مشتمل ایک آرڈر آیا
اس آرڈر کے چند چیدہ چیدہ نکات کے مطابق ایم جی موٹرز کی برطانوی اور چینی ویب سائٹ میں اس مخصوص گاڑی کی قیمت زیادہ تھی، جس کے جواب میں چینی سرکاری کمپنی ’ایس اے آئی سی‘ اور پاکستانی کمپنی ’جے ڈبلیو‘ نے موقف اختیار کیا کہ کمپنی کی ویب سائٹ پر قیمتیں خلیجی ودیگر ممالک کے لیے تھیں، نہ کہ پاکستان کے لیے
جے ڈبلیو کمپنی کا یہ بھی موقف تھا کہ ابتدا میں تین گاڑیاں منگوانے کے بعد جب پاکستان میں ان گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ ہوا تو انہوں نے تقریباً دو ہزار ایم جی گاڑیوں کی بکنگ کی، جس کے سبب چینی کمپنی نے ان کے ساتھ قیمتوں میں رعایت کی
دوسری جانب ایف بی آر کی جانب سے بھی تحقیقات کے لیے تین کلیکٹروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جنہوں نے ایم جی برانڈ کی اصل ویلیوئیشن معلوم کرنے کے لیے چینی کسٹمز سے رابطہ کیا۔ چونکہ پاکستانی کسٹمز کا چینی کسٹمز کے ساتھ باہمی تجارتی معلومات میں شریک کرنے اور ان کی تصدیق کرنے کے لیے بہت پہلے سے ایک مفاہمت نامہ موجود ہے، لہٰذا چینی کسٹمز نے درآمد کنندہ کمپنی ’جے ڈبلیو‘ کی طرف سے جمع کروائی گئی تجارتی دستاویزات کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی اعلان کردہ قیمتوں کو درست قرار دیا
دریں اثنا 10 فروری 2022ع کو کلکٹر ایڈجوڈیکیشن کے آرڈر میں ’جے ڈبلیو‘ کمپنی کو درآمدات جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی اور کسٹمز ایکٹ 1969ع کی سیکشن 25 کے تحت ایم جی گاڑیوں کے ایچ ایس ویرئینٹ کی حتمی قیمت کا تعین کیا اور بینک گارنٹی کی ’انکیشمنٹ‘ کے ذریعے حاصل شدہ سرکاری ریونیو کی وصولی کرتے ہوئے کیس کو خارج کردیا۔ یہ تمام تفصیل کلکٹوریٹ آرڈر میں ریکارڈ پر موجود ہیں.