برطانیہ میں مقیم خدیجہ کہتی ہیں ”اگر ہم نہیں سیکھیں گے تو پھر ہمارے مرنے کے بعد کون ہماری میت کو غسل دے گا، کون دفنائے گا“
تیئیس سالہ خدیجہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ایک ایسی تقریب میں شریک تھیں، جہاں مسلمان نوجوان بطور رضا کار میت کو غسل دینے اور تدفین کے عمل کو سیکھ رہے تھے
اسلام میں کسی بھی شخص کے مرنے کے بعد میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کا ایک باقاعدہ عمل ہوتا ہے، جس کے بعد ہی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے
یہ غسل عموماً مردے کے قریبی خاندان کے فرد یا محرم ہی دیتے ہیں اور مرنے والے/والی کی جنس کے لوگ ہی غسل دینے کے عمل میں شریک ہوتے ہیں
لیکن برطانیہ میں مسلمانوں کے لیے کورونا کی وبا کے دوران ایک نئی مشکل پیدا ہوئی۔ وہ بزرگ جو میت کی تدفین سے پہلے تمام اسلامی رسمیں ادا کرتے تھے، اس وبا کے بعد لاک ڈاؤن کی سخت پابندیوں کی وجہ سے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے
تحریم نور سپورٹنگ ہیومینٹی نامی خیراتی ادارے کی ہیڈ آف آپریشنز ہیں۔ وہ نئی نسل کے نوجوان رضاکاروں کو غسل اور دیگر رسومات کی ادائیگی سکھانے کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہیں
ایسی ورکشاپ اور تقریبات جہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق تدفین اور غسل کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں اب برطانیہ بھر میں منعقد کی جا رہی ہیں
ورکشاپس کے انعقاد کی وجہ بتاتے ہوئے تحریم نور کہتی ہیں ”یہ ضرورت وبا کے بعد محسوس ہوئی، جب ایک جانب تو اموات میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف تدفین کرنے والوں کی بھی اشد ضرورت پڑی“
سپورٹنگ ہیومینٹی نامی خیراتی ادارے کی جانب سے یہ ٹریننگ دینے والی سلمیٰ پٹیل نے بتایا کہ ان کو ایک میت کے غسل کے لیے تقریباً چھ رضا کاروں کی ضرورت ہوتی ہے
کورونا کی وبا کے عروج پر کئی خاندان اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا نہیں کر پاتے تھے۔ ایسے میں سلمیٰ پٹیل جیسے رضا کار ہی تھے، جو یہ فریضہ سرانجام دیتے تھے اور ایک ایک دن میں تین میتوں کے غسل اور تدفین کا بندوبست کرتے تھے
سلمیٰ پٹیل کے مطابق کبھی کبھی ان کو بہت کم وقت کے نوٹس پر ہی کسی کی تدفین کے لیے بلا لیا جاتا تھا
واضح رہے کہ کورونا وبا کی شروعات میں وائرس کے متعلق معلومات کی بھی کمی تھی اور یہ واضح نہیں تھا کہ آیا وبا سے متاثرہ شخص کی موت کے بعد اس سے وائرس پھیلنے کا خدشہ ہے یا نہیں
اس وقت برطانیہ کی مسلم کونسل سمیت کئی اسلامی اداروں نے وبا سے متاثرہ افراد کی میت کے غسل اور تدفین کے لیے باقاعدہ قوائد و ضوابط کا اعلان کیا تھا
برطانیہ کے صحت عامہ کے ادارے نے یہ اعلان کیا تھا کہ اسلامی یا کسی بھی اور مذہب کی تعلیمات کے مطابق کسی میت کی تدفین اور غسل کی رسومات کی ادائیگی کرنے میں اس وقت تک کوئی حرج نہیں، جب تک کہ تمام تر حفاظتی انتظامات کا خیال رکھا جائے، جن میں سماجی فاصلہ بھی شامل تھا
کورونا کی وبا نے برطانیہ کی جنوبی ایشیائی کمیونٹی کو بے حد متاثر کیا تھا، کیوں کہ ہزاروں اموات ہوئیں تھیں
’کسی کے جنازے پر جاتے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے‘
اس ورکشاپ میں شامل نوجوان رضاکاروں میں صفیہ بھی شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وبا میں اموات نے ہی ان کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ بھی تدفین کا اسلامی طریقہ سیکھیں
”وبا کے دوران ہم نے اپنے بہت سے پیاروں اور قریبی عزیزوں کو کھو دیا۔ ایسے میں جب ہمیں کسی کے جنازے پر جانا پڑتا اور ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کیا کرنا ہے تو مجھے لگا کہ اب کچھ کرنا ہو گا“
خدیجہ بھی انہی رضاکاروں میں شامل ہیں اور سمجھتی ہیں کہ آنے والی نسل کے لیے تدفین کا اسلامی طریقہ سیکھنا بہت ضروری ہے
’اگر ہم نہیں سیکھیں گے تو ہمارے تدفین کون کرے گا، ہمیں کون غسل دے گا؟‘
مشرقی لندن کے بیلگریو سینٹر میں منعقدہ ورکشاپ میں لگ بھگ نوے خواتین نے حصہ لیا، جہاں ان کو ایک مجسمے کی مدد سے غسل دینے اور کفن پہنانے کا طریقہ سکھایا گیا
جہاں ایک طرف خواتین کو اسلامی طریقہ کار کی آگاہی ملی، وہیں اس ٹریننگ نے ان کے کچھ خدشات بھی دور کر دیے
سمیعہ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کسی کی بھی میت کو غسل دینے سے پہلے جسم کے مخصوص حصوں کو باقاعدہ ڈھانپا جاتا ہے
وہ کہتی ہیں کہ ایک نوجوان مسلمان عورت ہونے کے ناطے مجھے ہمیشہ یہ فکر رہتی تھی کہ موت کے بعد جسم کی پرائیویسی (ستر) کیسے محفوظ رہتی ہے
کئی خواتین کے لیے اس ٹریننگ کا حصہ بننا ان کے مطابق نہایت ضروری تھا اور ایسے ہی تھا کہ ان کے لیے بحیثیت مسلمان یہ سب سیکھنا دینی فریضہ تھا
فرزانہ بھی اس ٹریننگ کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بطور رضا کار کسی کی تدفین میں شریک ہونا ان نوجوانوں کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ وہ اپنی کمیونٹی میں فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں
فرزانہ کہتی ہیں ”اس ٹریننگ کے بعد مجھے ایک اور سبق ملا اور وہ یہ، کہ موت کے بعد آپ کا نام، آپ کا حسب نسب، ہر چیز چھن جاتی ہے اور آپ کی شناخت صرف بحیثیت ایک میت باقی رہ جاتی ہے“