جب پاکستان کو ترقی کی اشد ضرورت ہے، مذہبی اور نسلی قوم پرستی ملک کو تقسیم کرتی ہے اور ترقی کو روکتی ہے۔ ملک 1971 میں غلط تصور شدہ قوم پرستی کی وجہ سے ٹوٹ گیا ، نسلی اور لسانی تعصبات نے ملک کے دونوں حصوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا اور آخر کار پاکستان کی وحدت کو توڑ دیا۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اس قسم کی قوم پرستی پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو ایک قوم بنایا جاسکے
ہماری حکومت، سیاسی و تعلیمی نظام و نصاب اور میڈیا نے اس بیانیے کو آج تک اپنا رکھا ہے کہ پاکستان کی واحد قومی زبان اردو اور اسلام ہی ملک کو متحد رکھنے کی ضمانت ہے ، پالیسی ساز یہ نہیں سمجھ رہے کہ متحد ہونے کے بجائے ایسا بیانیہ دوبارہ تقسیم کا باعث بن سکتا ہے
لوگ اپنی مادری زبان ترک کرنے پر تیار نہیں ہیں کیونکہ مادری زبان انھیں ان کے ثقافتی ورثے تک براہ راست رسائی فراہم کرتی ہے جس میں پریوں کی کہانیاں، شاعری، مقامی تاریخ وغیرہ شامل ہیں۔ بنگالی زبان کی تحریک پاکستان کے ٹوٹنے کی بڑی وجہ تھی، جس کی ایک وجہ یہ تھی۔ روس اور یوکرین میں جنگ کے پس پردہ نسلی اور لسانی تعصبات ہی کارفرما ہیں۔ یوکرین کی قوم پرست حکومت نے نسلی روسی شہریوں کو یوکرین میں روسی بولنے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے، جس کی وجہ سے روسی نژاد یوکرینین بغاوت پر اتر آئے
ہندوستان میں ہمارے دادا دادی کے لیے انگریزوں کے استعماری تسلط کے خلاف لڑنے اور ایک علیحدہ مسلم وطن کے لیے اسلام ضروری تھا کیونکہ ہندو اکثریت نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ بھارت کی ریاست آسام میں بنگلہ دیشی تارکین وطن کو ’’کیڑے‘‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں حب الوطنی کو جنم دینے کے لیے کثیر جہتی قومی بیانیہ ہونا چاہیے، کیونکہ ہمارے خطے میں صدیوں سے مختلف قبائل، نسلیں،ذاتیں اور مذہبی گروہ ہیں
پاکستان کے قیام کے لیے جو نظریہ اپنا کر جدوجہد شروع کی گئی، وہ بالکل درست ضرورت تھا لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ہمیں نئے زاویے سے سوچنے اور بیانیہ تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں غیر مسلم صدیوں سے مقیم چلے آرہے ہیں،ان کی جڑیں صدیوں سے یہاں پر موجود ہیں۔ انھیں اپنی شناخت رکھنے کا حق ہے، انھیں کسی صورت دوسرے درجے کا شہری نہیں قرار دیا جاسکتا اور نہ سمجھا جاسکتا ہے
اسی طرح اس خطے میں آباد مسلم قبائل،نسلیں، زبان اور ثقافتیں صدیوں پرانی ہیں، ان کو ختم یا مٹایا نہیں جاسکتا ، ان شناختوں کو’’تنوع میں اتحاد‘‘کے طور پر ایک لڑی میں پرویاجانا چاہیے۔ اتحاد کو زندہ رہنے کے لیے یکسانیت کی ضرورت نہیں! صرف ایک قومی زبان کیوں؟ کینیڈا میں انگریزی اور فرانسیسی زبانیں ہیں، سوئٹزرلینڈ میں جرمن، فرانسیسی اور اطالوی سرکاری زبانیں ہیں
یورپ میں مذہبی ، نسلی اور ثقافتی شناخت کو ختم نہیں کیا گیا ہے، بس ریاست اور قانون کو ان سے بالا تر رکھا گیا ہے۔ ہماری گلوبلائزڈ دنیا میں اسلام ایک مضبوط عالمی رجحان رکھتا ہے۔ اس کا دائرہ کار پوری دنیاحتیٰ کہ کائنات کے لیے ہے ۔ یہ حقیقت پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے لیے اس عالمگیریت کی دنیا میں آسانی پیدا کرتی ہے
عالمگیریت کے پہلو کے مضبوط ہونے کے ساتھ، فطری آپشن یہ ہے کہ حب الوطنی اور اپنے علاقے سے وابستگی کے احساس کو شامل کیا جائے ، ہمارا قومی ترقی کا فارمولا اسی بنیاد پر تیار ہونا چاہیے۔ اپنے علاقے، دیس ، ملک اور کلچر سے محبت فطری ہے حتی کہ جب لوگوں کو ان کے آبائی ملک سے نکال بھی دیا جائے تو ان کی محبت ختم نہیں ہوتی
دوسرے ملکوں اور شہروں میں آباد ہوکر اور اچھا روزگار حاصل کرکے بھی، اس جگہ سے محبت جہاں آپ پیدا ہوئے تھے کبھی نہیں مرتی۔ حب الوطنی کا تعلق اس مذہب سے ہوتا ہے جس میں آپ پیدا ہوئے، بشمول علاقہ ، محلہ، گاؤں یا آبائی شہر، خاندان، پڑوسی، جن کے ساتھ آپ پلے بڑھے اور جن دوست ، ان سب نے مل کر ہی آپ کو محب الوطن بنایا۔ اس حب الوطنی کو چھوٹی اقلیتوں کی آزادی کے جوڑنا چاہیے اور سماجی ترقی کے اشاریہ کے طور پر دیکھنا چاہیے
حب الوطنی کا جذبہ ایسا ہونا چاہیے جو ہمارے شہریوں جھوٹ بولنے، مزدوروں کا استحصال کرنے، ٹیکسوں میں دھوکا دہی، رشوت دینے، لینے ، ملاوٹ کرنے ، غریبوں پر ظلم کرنے، طاقتور کو سجدہ کرنے جیسی برائیوں سے روک دے۔ حکمرانوں کو عوام کے ساتھ غداری کرنے سے روک دے تاکہ نئی متحد قوم کی تعمیر کی جا سکے ، اس کمیونٹی میں مذہب اور نسل کی بنیاد پر امتیاز نہ ہو، سب برابر کے شہری ہیں، اس قوم کو تقسیم کرنے والے عناصر نہ ہوں ۔ مذاہب اور مسالک قوم اور معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے والے عناصر کے طور پر نہیں بلکہ متحد ہونے کا کام کرے۔ ہمیں اپنے ریاستی بیانیے پر نظر ثانی کرنی چاہیے
نوٹ: کالم نگار، دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کاراور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں. ان کا یہ کالم ایکسپریس نیوز اور مصنف کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا.