کئی لوگوں کے ذہن میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انٹرن شپ کا مطلب یہ ہے کہ انہیں کسی کمپنی میں کم سے کم تنخواہ پر چھوٹے موٹے کام کرنا ہوں گے۔ جیسے فائلیں سنبھالنا یا دفتر کی ضرورت کی چیزوں کا بندوبست کرنا
لیکن اس عام تاثر کے برعکس بعض ایسے انٹرنز بھی ہیں، جو اوبر اور ایمازون جیسی بڑی کمپنیوں میں ماہانہ آٹھ ہزار ڈالر سے زیادہ کی آمدن کما رہے ہیں
اس ضمن میں اپریل 2022 کے دوران جاب ریویو ویب سائٹ گلاس ڈور کے ایک سالانہ سروے سے معلوم ہوا کہ امریکہ میں سب سے زیادہ تنخواؤں والی انٹرنشپس کون سی ہیں؟ یہ وہ انٹرنشپس ہیں، جو محض ایک سال کرنے پر آپ امریکی ورکر کی اوسط سالانہ آمدن سے کہیں زیادہ پیسے کما سکتے ہیں
اس میں سرفہرست ایک گیمنگ کمپنی روبلوکس ہے، جہاں انٹرن کی ماہانہ تنخواہ قریب 9667 امریکی ڈالر ہے۔ مائیکرو سافٹ، ڈوئچے بینک اور ای بے جیسی دیگر کمپنیاں ہر ماہ اپنے انٹرنز کو قریب سات ہزار ڈالر دیتی ہیں
گلاس ڈور نے سنہ 2017ع سے بہترین آمدن والی انٹرن شپس پر نظر رکھی ہوئی ہے اور اس نے دیکھا ہے کہ ہر سال انٹرنز کی آمدن اوپر جا رہی ہے
کئی دہائیوں تک مشکل نوکریاں کرنے والے ملازمین کو انٹرنز کی ایسی تنخواہیں پریشان کر سکتی ہیں، لیکن عالمی وبا کے بعد بھی تنخواہیں بڑھنا ایک اشارہ ہے کہ کس طرح ملازمتوں کی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے
ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ دور میں کمپنیاں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ جلد از جلد ہنر مند افراد لائے جاسکیں، اس بات سے قطع نظر کہ ابھی یہ ہنر مند افراد اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں
اس حوالے سے گلاس ڈور کے معاشی ماہر اور ڈیٹا سائنٹسٹ لارن تھامس کا کہنا ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں کہ کچھ نئے انٹرن عام ملازمین کے مقابلے بہت زیادہ تنخواہیں کیوں لے رہے ہیں۔ لارن تھامس نے اسی انٹرن شپ سروے کے لیے کام کیا
وہ کہتی ہیں ’یہ اسی چیز کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ انٹرنز بعد میں کتنا کماتے ہیں۔‘
اگر ایک انٹرن کسی ٹیکنالوجی یا مالیاتی کمپنی میں ماہانہ قریب آٹھ ہزار ڈالر کی آمدن کماتا ہے تو یہ ایسی کمپنیوں میں باقاعدہ نوکری کی صورت میں ان کی ابتدائی تنخواہ سے بہت مختلف نہیں
تھامس کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں اسی لیے اتنے پیسے دیتی ہیں تاکہ ہنر مند انٹرنز ان کے ساتھ جڑے رہیں
وہ کہتی ہیں کہ کئی کمپنیاں ان انٹرن شپ پروگرامز کو ’پائپ لائن‘ کے طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ انہی انٹرنز کو بعد میں فل ٹائم نوکریوں پر رکھا جا سکے۔ یہ خاص کر عالمی وبا کے دوران دیکھا گیا کیونکہ ’تاریخی اعتبار سے کمپنیاں ایک مشکل جاب مارکیٹ میں ہیں جس کا مطلب ہے کہ ملازمین کے پاس معمول سے زیادہ مواقع ہیں۔‘
یہ اضافی مواقع انٹرنز کو بھی میسر ہوتے ہیں کیونکہ کئی کمپنیاں ہنر مند افراد کی تلاش میں تگ و دو کرتی ہیں
ان میں سے اکثر بہترین انٹرن شپس ٹیکنالوجی یا فائنانس کے شعبوں میں ہوتی ہیں
تھامس کا کہنا ہے کہ دو سال قبل ٹیکنالوجی کے شعبے میں نصف سے بھی کم سب سے زیادہ آمدن والی انٹرن شپس ہوا کرتی تھیں مگر آج اس فہرست میں سیلیکون ویلی کی کمپنیاں 68 فیصد بہترین انٹرن شپس دے رہی ہیں
انہوں نے بتایا ’کئی کاروباروں کو سرگرمیاں آن لائن کرنا پڑیں اور کاموں کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال عام ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹیکنالوجی (کے ہنر) پہلے سے کہیں زیادہ مطلوب ہے‘ مگر توانائی یا مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں کی بڑی کمپنیاں بھی انٹرنز کو اچھی آمدن دیتی ہیں اور انھیں نوکریاں دینے کی کوشش کرتی ہیں۔
کئی بڑی کمپنیاں ملازمین کو لالچ دے کر اپنے پاس بلا رہی ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ وہ ابھی اپنے کیریئر کے سب سے ابتدائی مرحلے پر ہیں
امریکہ کی کارنیگی میلن یونیورسٹی میں ہائنز کالج آف انفارمیشن اینڈ پبلک پالیسی کے ران ڈیلفائن بتاتے ہیں کہ ’انہیں اس طرح یہ مثال دی جاتی ہے کہ اگر آپ یہاں کام کرتے ہیں تو آپ اتنا کما سکتے ہیں۔ آپ زندگی کے ایسے معیار کی توقع کر سکتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ گلاس ڈور کی فہرست پر مختلف یونیورسٹیوں کے ایسے کئی طالب علم ہیں، جو بڑی کمپنیوں میں انٹرنشپ کر رہے ہیں
ان کے خیال میں اِن میں سے نصف طالب علموں کو ان اداروں میں باقاعدہ نوکریوں کی پیشکش کی جاتی ہے
وہ کہتے ہیں کہ انٹرنز کو زیادہ پیسے دینا ایک سرمایہ کاری کی طرح ہے تاکہ ہنرمند افراد کی تلاش میں کمپنی کچھ پیسے بچا سکے، انٹرنشپ کے دوران کام سکھایا جا سکے اور بہترین ٹیلنٹ کو اپنے پاس بلایا جا سکے
مگر ایسے پُرکشش مواقع کیا صرف چند لوگوں کے لیے محدود ہیں؟ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اعلیٰ ترین یونیورسٹیاں زیادہ تنخواہ کمانے والے انٹرنز کا ذریعہ ہو سکتی ہیں۔ مگر ماہرین کے مطابق پُرکشش انٹرنشپ صرف مہنگے اسکولوں، مخصوص تعلیمی پروگرام یا مینیجر کے ساتھ روابط والے لوگوں تک محدود نہیں
مینیجر کسی امیدوار کے ہنر، ان کے پس منظر اور سابقہ ریکارڈ پر بھی توجہ دیتے ہیں کیونکہ کئی کمپنیاں انٹرنشپ استعمال کر کے باقاعدہ نوکریوں پر لوگوں کو رکھتے ہیں
اس کے علاوہ ریموٹ ورکنگ (یعنی دفتر کے بجائے کہیں سے بھی کام کرنا) نے مختلف سماجی اور مالی پس منظر کے طبقوں کے لیے بہترین انٹرنشپس کے مواقع ممکن بنائے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شاید اپنے خواب کی تعبیر کے لیے شہری مراکز میں منتقل ہونے کے اخراجات نہ اٹھا سکیں
تھامس کا کہنا ہے ’اچھی خبر یہ ہے کہ سب سے زیادہ معاوضے والی انٹرنشپس میں لوگوں کو ریموٹ ورکنگ کے لیے رکھا جا رہا ہے۔ اس طرح محض سان فرانسسکو یا نیو یارک ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے امیدوار ایسے مواقع حاصل کرسکتے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب ان طلبہ کے لیے بھی راستے ہیں جو ٹیکنالوجی یا فائنانس کی نوکریاں نہیں ڈھونڈ رہے۔ جب بات مواقع حاصل کرنے کی ہو تو طلبہ اس طرح نہیں سوچتے کہ انھیں ماہانہ آٹھ ہزار ڈالر کی انٹرن شپ ہی چاہیے۔ بلکہ مختلف شعبوں میں وہ اپنے لیے سیکھنے کے مواقع ڈھونڈتے ہیں اور اس طرح انھیں اچھی آمدن مل سکتی ہے
امریکہ میں نیشنل ایسوسی ایشن آف کالج اور ایپملائیرز کے سال 2021 کے سروے میں 267 بڑی کمپنیوں کے ڈیٹا کی جانچ کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ قریب ایک دہائی کے دوران تمام شعبوں میں انٹرنشپ کی تنخواہ بڑھی ہے۔ ان میں ٹرانسپورٹ، انشورنس، ریٹیل مینجمنٹ اور فوڈ سروسز جیسے شعبے شامل ہیں
اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 2020ع کی گرمیوں میں ان کمپنیوں میں انٹرنز کی اوسط تنخواہ 20.76 ڈالر فی گھنٹہ تھی۔ گذشتہ سال کے مقابلے یہ 1.22 ڈالر زیادہ ہے اور اسے انٹرنز کے لیے اب تک کی بہترین اوسط تنخواہ کہا جا سکتا ہے
اس طرح انٹرنز کی ماہانہ تنخواہ تین ہزار تین سو ڈالر اور سالانہ قریب چالیس ہزار ڈالر بنتی ہے۔ یہ امریکہ میں نصف آبادی کی اوسط آمدن سے زیادہ ہے
اگرچہ کئی بڑے شعبوں میں انٹرنز بہت زیادہ پیسے کما رہے ہیں لیکن تخلیقی یا غیر منافع بخش کمپنیوں میں آج بھی کئی انٹرنز بلا معاوضہ کام کر رہے ہیں
سال 2018ع کے ڈیٹا کے مطابق امریکہ میں 40 فیصد انٹرن شپس میں کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا۔ یہ غیر منافع بخش، سرکاری یا آرٹس جیسے شعبوں کی انٹرن شپس میں طویل مدتی رجحان رہا ہے
امریکہ کی یونیورسٹی آف مشیگن سے منسلک ہیدر بائرن کہتی ہیں کہ بینکاری، ٹیکنالوجی یا کنسلٹینٹ جیسے شعبوں میں انٹرنز کی اچھی تنخواہیں شاید وہاں کی روایت بن گئی ہو لیکن آرٹس، سپورٹس، میڈیا یا دیگر صنعتوں میں انٹرنشپ کے بدلے اچھے معاوضوں کی کوئی روایت نہیں اور ایسا اب بھی غیر معمولی تصور کیا جائے گا
تاہم تبدیلی کے کچھ اشارے ضرور ملتے ہیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران بلا معاوضہ انٹرن شپس پر عوامی غصہ بڑھا ہے۔ بعض سابقہ انٹرنز نے اپنی بڑی کمپنیوں کے خلاف امتیازی سلوک اور استحصال پر بھی مقدمات درج کروائے اور جیتے ہیں
عالمی وبا کے دوران ملازمین کی قلت کے باعث کمپنیوں کو اس بات کا بھی احساس رہا کہ ہنرمند نوجوان افراد کام کے دوران بُرے ماحول سے دور رہنا چاہتے ہیں
امریکہ میں قائم سوسائٹی فار ہیومن ریسورس مینجمنٹ میں ایویٹ لی کا کہنا ہے کہ ’میرے ایچ آر کے تجربے میں کمپنیوں کو احساس ہو رہا ہے کہ موجودہ ماحول میں لوگوں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ مفت میں کام کر سکیں۔‘
’ہنرمند افراد کو اپنی طرف متوجہ کرنا بہت مشکل ہے اگر اب ان سے یہ کہا جائے کہ تجربے کے لیے مالی استحکام حاصل کریں۔‘
مستقبل میں یہ روایت ہو سکتی ہے کہ انٹرنز کو مناسب تنخواہ دی جائے اور کوئی ایسا انٹرن نہ ہو جو مفت میں کام کرتا ہو۔ ڈیلفائن کے مطابق انٹرنز ایک ٹیم میں بہت اچھی صلاحیتیں دے سکتے ہیں۔ فی الحال شاید تمام انٹرنز کی تنخواہیں ماہانہ ہزاروں ڈالر نہ ہو سکیں۔ تاہم یہ تنخواہیں اب کے مقابلے مستقبل میں اوسطاً زیادہ ہوسکتی ہیں
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے امید ہے کہ لوگوں کو احساس ہو گا انٹرنز کی کیا اہمیت ہے کیونکہ وہ اپنے کام سے لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں اور انھیں کاروبار کے نئے طریقے سکھا سکتے ہیں۔‘
اکثر کمپنیاں انٹرنز کو یہ بتاتی ہیں کہ وہ وہاں تجربہ حاصل کرنے آ رہے ہیں اور انھیں اسی بات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھیں یہ سیکھنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ لیکن عالمی وبا کے بعد اب کے ماحول میں لوگوں کو زیادہ پُراعتماد ہو کر انٹرن شپ ڈھونڈنی چاہیے۔ انھیں ایسی کمپنیوں کی تلاش ہونی چاہیے جو ان کے ہنر اور خیالات سے بہت کچھ حاصل کر سکتی ہیں۔
تھامس کا کہنا ہے ”اس فہرست سے لوگوں کو یہ اعتماد ملنا چاہیے کہ وہ اپنی انٹرن شپ سے زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کر سکیں۔ ایسی بہت سی کمپنیاں ہیں جو اچھی تنخواہیں دیتی ہیں اور ملازمین سے خاص کر موجودہ مارکیٹ میں اچھا سلوک کرتی ہیں“
نوٹ: اس فیچر کی تفصیلات برائن لفکن کے بی بی سی ورک لائف میں شائع ہونے والے آرٹیکل سے لی گئی ہیں