صوبہ سندھ کے ضلع بدین سے تعلق رکھنے والے زمیندار لالہ اللہ نواز شیخ کا کہنا ہے ’میں نے سو ایکڑ میں سے کچھ رقبے پر کپاس لگائی تھی۔ پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ کپاس جل چکی ہے۔ اب سارا رقبہ خالی پڑا ہے۔ پانی ہی نہیں ہے کہ ہم اپنے رقبے کو آباد کرسکیں‘
لالہ اللہ نواز شیخ کہتے ہیں کہ ’ہم پانی کے مسائل سے دوچار ہیں لیکن یہ سال تو پانی کی قلت کی وجہ سے بدترین رہا ہے۔ ہمیں تو عملی طور پر قحط سالی کا سامنا ہے‘
انہوں نے کہا ’کبھی ہمارے بچے شہروں کے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اب ہم نے ان کو واپس بلا لیا ہے کیونکہ ہمارے پاس ان کی فیسیں اور اخراجات ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اب وہ گاؤں ہی کے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ کبھی ہم چاروں بھائی مل کر اپنی ہی زمین پر کام کرتے تھے۔ اب میرے تین بھائی شہر میں محنت مزدوری کرنے گئے ہیں‘
سندھ کے کاشت کاروں کی تنظیم کے رہنما محمود نواز نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ چشما سے پانی چھوڑنے کے بعد پانی کو گڈو بیراج پہنچنے میں تین دن لگتے ہیں، سکھر بیراج تک آنے میں چار دن اور کوٹڑی بیراج تک آنے میں چھ سے سات دن لگتے ہیں، اور جب یہ پانی نہروں میں چھوڑا جاتا ہے تو کھیتوں تک پہنچنے میں دس دن لگ جاتے ہیں۔ جب ایک پانی فصلوں کو دیا جاتا ہے تو پیچھے سے قلت شروع ہوجاتی ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں نہریں پندرہ دن بند رہنے کے بعد ایک ہفتے کے لیے کھولی جاتی ہیں۔ اس وقت سندھ کو سرکاری طور پر 51 فیصد پانی کی کمی ہے، مگر سندھ کو نقصان 70 فیصد ہے
انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں تمام فصلوں کی کاشت سب سے پہلے سندھ سے شروع ہوتی ہے اور فصل بھی سب سے پہلے سندھ میں ہی پکتی ہے۔ پورے ملک میں پانی کی قلت اپریل سے شروع ہوئی ہے، مگر سندھ میں پانی کی قلت تو 15 مارچ سے پہلے ہی شروع ہوگئی ہے
صوبہ سندھ میں خریف فصلوں کی کاشت کے آغاز سے ہی دریائے سندھ میں پانی کی شدید قلت پر صوبہ سراپا احتجاج ہے
سوشل میڈیا صارفین پانی کی قلت اور ’سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہ ملنے‘ کے خلاف آن لائن احتجاج کرنے کے ساتھ کئی دنوں سے ٹوئٹر پر #SindhNeedsWater نام کا ہیش ٹیگ چلاکر احتجاج کر رہے ہیں
ہفتے کے روز سکھر بیراج پر سیکرٹری آبپاشی، چیف انجینئر سکھر بیراج کے ساتھ وفاقی وزیر اور صوبائی وزیر آبپاشی کے ساتھ اجلاس کے بعد جاری اپنے بیان میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ 1991 کے پانی کے معاہدے کی روشنی میں سندھ کو تھری ٹئیر فارمولا کے تحت کم پانی مل رہا ہے۔ سندھ کو معاہدے کے مطابق پانی دیا جائے
پانی کی قلت پر سوشل میڈیا صارفین ٹوئٹر پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں۔ معروف سیاستدان اور قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’سندھ میں پانی کی 72 فیصد کمی ہے۔ ہمیں ہمارا حصہ دیا جائے، پانی کی قلت ہمارے روزگار، زراعت اور اقتصادیات کو تباہ کر رہا ہے۔ ارسا 1991 معاہدے کے تحت پانی تقسیم کی خلاف ورزی کررہا ہے۔‘
معروف سیاستدان اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے سندھ نیڈز واٹر ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹ کی
’سندھ لوئر رپریئن یا دریا پر آخری خطہ ہونے کے ساتھ دریا کے بہاؤ میں کمی اور بڑھتے ہوئے سمندر کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کو سندھ کی پانی کی ضروریات کا احساس ہونا چاہیے۔ سندھ میں پانی کی قلت پر احتجاج کا کیوں انتظار کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد پانی سپلائی کیا جائے۔‘
ادہر اسسٹنٹ انجینئر کینجھر جھیل کا کہنا ہے کہ کینجھر جھیل میں پانی کی سطح ڈیڈلیول کے قریب پہنچ گئی ہے، جھیل میں پانی کی سطح 56 سے کم ہوکر 48 فٹ پر آگئی
ایک بیان میں کینجھر جھیل کے اسسٹنٹ انجینئر نے کہا کہ پانی کا لیول 42 فٹ ہونے پر سندھ کے دارالحکومت کراچی کو پانی کی فراہمی بند ہوجائے گی
انہوں نے کہا کہ کراچی کو جھیل سے 1200 کیوسک پانی یومیہ فراہم کیا جاتا ہے
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گلیشیئرز اور بارشوں کا پانی جھیل میں نہ آیا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے
دوسری جانب انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق اس وقت پورا ملک ہی کسی نہ کسی حد تک پانی کی قلت کا شکار ہے۔ سندھ میں یہ قلت پچاس فیصد تک ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں یہ قلت ستر فیصد تک ہے
ارسا کے مطابق ملک میں جاری پانی کی شدید قلت کی صورتحال میں جلد ہی بہتری آئے گی۔ ارسا کے ترجمان خالد ادریس رانا کا کہنا ہے کہ اس وقت سندھ اور پنجاب کو 20، 20 فیصد پانی کی کمی ہے۔ ان کے مطابق ’اسکردو اور دیگر جگہوں پر جہاں گلیشرز موجود ہیں، وہاں درجہ حرارت نہ بڑھنے کے باعث ملک میں پانی کمی ہوئی، مگر اب سکردو پر درجہ حرارت بہتر ہورہا ہے، جس سے امید ہے کہ جلد ہی پانی کی صورتحال میں بہتری آئے گی‘
خالد ادریس رانا کے مطابق جمعے کو اسکردو میں درجہ حرارت 20 ڈگری سینٹی گریڈ، ہفتے کو 25 اور اتوار کو 27 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ واضح رہے کہ گلیشئیر 25 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرات پر پگھلنا شروع کرتے ہیں
ٹیل آبادکار ایسوسی ایشن سندھ کے صدر عزیز اللہ ڈیرو کا کہنا ہے کہ ویسے تو پانی کا مسئلہ پورے سندھ کا ہے۔ سندھ کو اس کا جائز حق نہیں مل رہا ہے لیکن اس وقت کوٹڑی بیراج سے منسلک اضلاع میں تو عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ زیر زمین پانی کڑوا اور زہریلا ہوچکا ہے۔ ربیع کی زیادہ تر فصلیں خراب ہو چکی ہیں جبکہ مال مویشی کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہے“
عزیز اللہ ڈیرو کہتے ہیں کہ دریائے سندھ پر انحصار کرنے والے آخری اضلاع سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ زمینیں خالی پڑی ہیں، کسانوں اور زمینداروں کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں، لوگ مجبور ہو کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں کہ وہاں پر محنت مزدور کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اضلاع میں کسی زمانے میں کیکر کا درخت لگا کرتا تھا۔ جب کبھی پانی کی قلت زیادہ ہوتی، کسان اور زمینداروں کو فصل میں کوئی نقصان وغیرہ ہوتا تو وہ کیکر کو کاٹ کر اپنی گزر بسر کر لیا کرتے تھے۔ مگر گزشتہ پانچ سالوں اور خاص طور پر اس سال تو کیکر کے درخت بھی نہیں ہیں کیونکہ زمین بالکل خشک ہوچکی ہے
لالہ اللہ نواز شیخ کہتے ہیں ’ہمارے مال مویشی بھی مر رہے ہیں۔ ہم اپنے مویشیوں کو زہریلا زیر زمین اور گندا پانی پلانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ کسی زمانے میں ہماری بھینس کی قیمت دس لاکھ روپیہ ہوا کرتی تھی۔ اب اس کو کوئی دو لاکھ میں بھی نہیں لیتا ہے۔ ہماری بکری کبھی ہاتھوں ہاتھ تیس ہزار کی فروخت ہوا کرتی تھی۔ اب کوئی پانچ ہزار بھی دینے کو تیار نہیں ہے‘
واضح رہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق مارچ اور اپریل میں بارشوں کی ریکارڈ اوسط تاریخی طور پر کم رہی ہے۔ اس وقت بھی پاکستان خشک سالی کے دور سے گزر رہا ہے
پانی اور ماحولیات کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ پانی کی قلت کا ایک سبب خشک سالی ہے تو دوسرا اہم سبب پانی کی تقسیم کا طریقہ کار اور تعمیر کی گئی نہروں کا ڈھانچہ ٹھیک نہ ہونا اور جدید طریقے اختیار نہ کرنا ہے
پانی کی قلت کے حوالے سے ارسا کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں پانی کے زرائع دریاؤں اورڈیموں میں اوسط توقع سے مجموعی قلت 38 فیصد ہے
جس میں دریائے سندھ اور تربیلہ ڈیم میں 13فیصد، دریائے کابل میں 46 فیصد، دریائے جہلم اور منگلہ ڈیم میں 44فیصد، دریائے چناب میں 48 فیصد اور دیگر زرائع میں یہ کمی 66 فیصد ہے
ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ یہ سال خشک سالی اور برف باری کے حوالے سے بدترین رہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سندھ میں اس وقت جو زراعت ہے یہ مکمل طور پر دریائے سندھ کے مرہوں منت ہے۔ یہ کوئی آج کا نہیں بلکہ کئی سو سالوں کا معاملہ ہے
ان کا کہنا ہے ”مارچ، اپریل اور مئی کے آغاز میں پانی کا زیادہ انحصار برفباری پر ہوتا ہے۔ گلیشیئر پر موجود برف کا مئی کے بعد پگھلنا اور اس کا پانی دریاوں میں شامل ہونا شروع ہوتا ہے۔ اب ہوا یہ کہ سردیوں میں کم بارشیں ہوئیں اور برفباری بھی ریکارڈ کم ہوئی۔ جس کی وجہ سے مارچ اور اپریل میں پانی کم رہا تھا“
ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ دریائے سندھ اور دوسرے دریاؤں پر ڈیم تعمیر ہو چکے ہیں۔ ’ان کا قدرتی بہاؤ روک لیا گیا ہے یا متاثر ہوگیا ہے اور اسکا اثر بھی سندھ پر پڑتا ہے۔ اب پانی تقسیم کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا ہے کہ سندھ کو کس وقت پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
پانی کی تقسیم کے طریقہ کار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا تھا کہ سندھ کے موسم پنجاب سے ایک ماہ آگے ہیں۔ یعنی سندھ میں پنجاب سے ایک ماہ پہلے گرمیوں کا سیزن شروع ہوتا ہے۔ جس وجہ سے ربیع کا سیزن بھی پہلے شروع ہوتا ہے۔ جس وقت پنجاب میں گندم کاشت کی جارہی ہوتی ہے اس وقت سندھ میں گندم کی کٹائی کا وقت ہوتا ہے
انہوں نے کہا کہ سندھ کو عموماً مارچ اور اپریل میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت سندھ کو پانی فراہم نہیں کیا جاتا۔ پانی کی یہ فراہمی سندھ کو مئی، جون میں شرو ع ہوتی ہے۔ اب اس میں بھی یہ ہوتا ہے کہ یہ پانی پہلے پنجاب کو فراہم کیا جاتا ہے بعد میں سندھ کو دیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سندھ کی فصلیں پانی کی قلت کے سبب خراب ہو رہی ہوتی ہیں
ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں ”اس سال تو سندھ میں پانی کی قلت شاید تاریخی ہے۔ جس سے کھڑی فصلیں خراب ہوچکی ہیں۔ زمین کو نئی فصلوں کے لیے تیار نہیں کیا جاسکتا۔ کسان اور زمیندار پانی کی قلت کے بارے میں آواز اٹھاتے رہے لیکن ان کی آواز کسی نے بھی نہیں سنی ہے.“