ایک دن شام کے وقت جب کہ آسمان پر بادل لہرا رہے تھے۔ ایک اجنبی ششوپال، برہمن کے دروازے پر آیا اور لجاجت آمیز لہجے میں بولا، ’’کیا مجھے رات کاٹنے کے لیے پناہ مل سکے گی؟‘‘ ششو پال اپنے گاؤں میں سب سے غریب تھے۔ تاہم اجنبی کو دروازے پر دیکھ کر ان کا چہرہ شگفتہ ہو گیا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ میر ی خوش نصیبی ہے۔ آئیے تشریف لائیے۔‘‘
ششو پال کے لڑکے نے اجنبی کی خاطر مدارت کی ۔ اجنبی اس پر لٹو ہو گیا۔ اس نے برہمن سے کہا، ’’آپ کا لڑکا بڑے کام کا ہے۔ اس کی خدمت سے میرا جی خوش ہوگیا۔‘‘ ششو پال نے اس طرح سر اٹھایا۔ جیسے کسی نے سانپ کو چھیڑ دیا ہو۔ او رحقارت آمیز لہجہ میں کہا، ’’تم ہمارے مہمان ہو۔ ورنہ برہمن ایسے الفاظ سننے کی تاب نہیں رکھتے۔‘‘ اجنبی نے اپنی غلطی پر نادم ہو کر کہا، ’’شما کیجئے! میرا مطلب یہ نہ تھا۔ گر آج کل وہ برہمن کہاں ہیں۔ اب تو آنکھیں ان کے لیے ترستی ہیں۔‘‘ ششوپال نے جواب دیا، ’’برہمن تو اب بھی ہیں۔ کمی صرف کشتریوں کی ہے۔‘‘
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘
ششوپال نے ایک عالمانہ تقریر شروع کر دی۔ اجنبی حیران ہوا کہ ایک ایسے چھوٹے سے گاؤں میں ایسا متبحر بھی موجود ہے۔
’’مجھے خیال نہ تھا کہ گودڑ میں لال چھپا ہے۔ مہاراج اشوک کو معلوم ہو جائے تو وہ آپ کو بہت بڑا عہدہ دے ۔‘‘
ششو پال (مسکرا کر) آج کل بڑی بے انصافی ہورہی ہے۔ جب دیکھتا ہوں تو میرا خون کھولنے لگتا ہے اجنبی (پینترا بدل کر)، ’’شیر بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں۔‘‘
ششو پال: ’’رہنے بھی دو میں سب جانتا ہوں۔‘‘
اجنبی: ’’نقص نکالنا آسان ہے مگر کچھ کر کے دکھانا مشکل ہے۔‘‘
ششو پال: ’’اگر مجھے موقع ملے تو دکھا دوں انصاف کسے کہتے ہیں۔‘‘
اجنبی: ’’اگر میں اشوک ہوتا تو آپ کی خواہش پوری کر دیتا۔‘‘
دوسرے دن مہاراجہ اشوک کے دربار میں ششو پال کی طلبی ہوئی۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ ششو پال کے لیے یہ طلبی کا حکم پیام مرگ ہے سب کو یقین تھا کہ اب ششو پال زندہ نہ لوٹیں گے۔ شام ہو گئی تھی۔ جب ششوپال پاٹلی پتر پہنچے تو ان کو شاہی محل میں پہنچا دیا گیا۔ اس وقت تک انہیں خیال تھا کہ شاید ان کے افلاس کی کہانی یہاں تک پہنچ گئی ہے، اس لیے مہاراج نے کچھ دینے کے لیے بلایا ہوگا۔ لیکن جب نوکر نے کہا مہاراج آرہے ہیں تو ان کا کلیجہ دھڑکنے لگا۔ اتنے میں مہاراجہ اشوک شاہانہ انداز سے کمرے میں داخل ہوئے۔ اور مسکرا کر کہا۔ برہمن دیوتا غالباً آپ نے مجھے پہچان لیا ہوگا۔ ششوپال گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ اجنبی مہمان راجہ اشوک تھا۔ اگرچہ مہاراجہ کو دیکھ کر وہ بہت ڈرے۔ مگر اپنے آپ کو سنبھال لیا۔
ششوپال: ’’مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ ہی مہاراج ہیں۔ ورنہ میں ایسی آزادی سے کبھی گفتگو نہ کرتا۔‘‘
مہاراج: ’’ہوں۔‘‘
ششوپال: ’’لیکن میری بات میں رتی بھر مبالغہ نہ تھا۔‘‘
مہاراج: ’’لیکن آپ کی غلطی تھی۔‘‘
ششوپال: ’’نہیں میں ثبوت دے سکتا ہوں۔‘‘
مہاراجہ: ’’میں آپ کی آزمائش کرتاہوں۔ دیکھوں تم کیسے انصاف کا ڈنکا بجاتے ہو۔ کل صبح سے تم وزیر عدالت ہو۔ سارے شہر پر تمہارا اختیار ہوگا۔ اور تم امن کے ذمہ دار سمجھے جاؤ گے۔‘‘
ایک ماہ گزر گیا۔ وزیر عدالت کے انتظام اور انصاف کی چاروں طرف دھوم مچ گئی۔ رات کا وقت تھا۔ آسمان پر تارے کھلے ہوئے تھے۔ ایک امیر نے ایک عالی شان مکان پر دستک دی۔ دریچہ سے ایک عورت نے سرنکال کر پوچھا۔
’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں۔ دروازہ کھول دو۔‘‘
’’مگر وہ یہاں نہیں ہے۔‘‘
’’پرواہ نہیں تم دروازہ کھول دو۔‘‘
’’دروازہ نہیں کھل سکتا۔ شہر پر ششو پال کی حکومت ہے۔‘‘
’’میں دروازہ توڑتا ہوں۔‘‘
امیر نے تلوار نکال کر دروازے پر حملہ کیا، ایک پہرہ دار نے آکر اسے روکا، دونوں میں مقابلہ ہوا اور پہرہ دار قتل ہوگیا۔ اب تو امیر کا خون خشک ہوگیا۔ اس نے پہرے دار کی لاش کو ایک طرف پھینکا اور بھاگ گیا۔
ششو پال کے تقرر کے بعد یہ پہلا وقوعہ تھا۔ اس نے سرگرمی سے تحقیقات کی، مگر قاتل کا پتہ نہ لگا۔ آخر مہاراجہ نے اسے بلا کر کہا تم کو تین دن کی مہلت ہے۔ اگر اس عرصہ میں قاتل نہ پکڑا گیا تو اس کی جگہ تم کو پھانسی دی جائے گی۔ رات کا وقت تھا۔ مگر ششوپال کی آنکھوں میں نیند نہ تھی۔ وہ شہر کے اس گنجان حصہ میں گھوم رہا تھا جہاں یہ واردات ہوئی تھی۔ یکا یک ایک مکان کے دریچے سے ایک عورت نے جھانک کر باہردیکھا۔ چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ عورت نے آہستہ سے پوچھا، ’’تم کون ہو؟پہرے دار؟‘‘ ششوپال نے جواب دیا، ’’نہیں میں وزیر عدالت ہوں۔‘‘ ’’ذرا ٹھہرو‘‘ کہہ کر عورت کھڑکی سے غائب ہو گئی۔ اور روشنی لے کر دروازے سے نمودار ہوئی۔ اور وزیر عدالت کو اپنے کمرے میں لے جا کر ایک چوکی پر بٹھایا اور کہا، ’’یہ آخری رات ہے؟‘‘ ششو پال نے جواب دیا، ’’ہاں آخری رات۔‘‘ عورت تلملا کر کھڑی ہوگئی اور بولی، ’’میں سب کچھ جانتی ہوں۔ قاتل جس کے پاس آیا کرتا تھا۔ میں اس کا نام نہیں لے سکتی۔ ایک دن جو وہ آیا تو وہ گھر میں نہ تھی۔ قاتل نے میری بات کا یقین نہ کیا۔ اور دروازہ توڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ پہرے دار نے روکا تو اس کے ہاتھ سے مارا گیا۔‘‘ وزیر عدالت نے قاتل کا نام پوچھا تو اس عورت نے سہمی ہوئی کبوتری کی طرح چاروں طرف دیکھا اور اس کے کان میں کچھ کہہ کر جلدی جلدی اسے رخصت کر دیا۔
مہاراجہ اشوک نے کڑک کر ششوپال سے کہا، ’’میعاد گزرگئی۔ کہو مجرم کا پتہ لگا؟‘‘ اس نے کہا کہ، ’’ہاں میں نے معلوم کرلیا ہے کہ مجرم کون ہے۔ لیکن شاستروں میں راجہ کی ذات مقدس تسلیم کی گئی ہے۔ اسے ایشور ہی سزا دے سکتا ہے۔ وزیر عدالت کو اختیار نہیں کہ اس کو سزا دے۔ اس لیے میں حکم دیتاہوں کہ قاتل کے بت کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے اور مہاراج کو تنبیہ کر دی جائے۔‘‘ یہ کہا اور ششوپال نے عدالت کی مہر اشوک کے سامنے رکھ دی اور اپنے گاؤں واپس جانے کی اجازت مانگی لیکن اشوک نے اس کی طرف احترام کی نگاہوں سے دیکھ کر کہا، ’’آپ کی جرات تاریخ ہند میں یاد گار رہے گی۔ یہ بار آپ ہی اٹھا سکتے ہیں۔‘‘