پاکستان کی دگرگوں ہوتی معاشی صورتحال کے پیش نظر لوگ یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ کیا پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے؟ کیا حکومت پاکستان بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنے جا رہی ہے؟ اور کیا اب پاکستانی عوام بھی سری لنکا کی عوام کی طرح اپنے حکمرانوں کے گھر جلانا شروع کر دے گی؟
یہی وہ صورت حال ہے جس نے سنجیدہ حلقوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر گیا تو کیا ہوگا۔ کیا کوئی ایسی صورتحال ہے کہ پاکستان میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا نہ ہو سکے؟
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ پانچ ارب ڈالرز کے قرض مئی میں ادا کرنے ہیں اور پانچ ارب ڈالرز کے قرض جون میں واجب الادا ہیں
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جلد طے نہ ہوئے تو خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے اور ملک میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، حکومت پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے مطالبات مان لے
ایسے میں لوگ حیران ہیں کہ نہ جانے سرکار کس بات کا انتظار کر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کو دو حکومتیں چلا رہی ہیں۔ ایک پاکستان میں اور دوسری لندن میں۔ نواز شریف نے غریب ملک کے وزیراعظم کو چار دن سے لندن میں روک رکھا ہے۔ اور ملک میں ڈالر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ سری لنکا میں بھی ایک بھائی صدر اور دوسرا وزیراعظم تھا۔ وہاں بھی طاقت کا مرکز ایک نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستان میں پاور کی دو جگہ تقسیم سے کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے اور فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے.
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کہتے ہیں ”ملک کی معاشی حالت نازک ہو چکی ہے۔ مبینہ طور پر سعودی عرب نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔“
حماد اظہر کے مطابق سعودی عرب نے پچھلے قرضے واپس مانگ لیے ہیں۔ چین نے بھی مزید قرض دینے اور قرضوں کی ادائیگی ملتوی کرنے کی بجائے چینی آئی پی پیز کے 300 ارب روپے واپس مانگ لیے ہیں۔ دونوں ممالک کا مطالبہ ہے کہ پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کریں۔ پھر ہی مزید قرض مل سکے گا
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان اور سری لنکا کے حالات میں بہت مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ نہیں دی اور سارا زور درآمدات بڑھانے پر دیا گیا اور جب درآمدات پر پابندی لگائی تو پانی سر سے گزر چکا تھا
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی درآمدات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ ابھی بھی غیر ضروری لگژری اشیا کی درآمدات تقریباً 15 ارب ڈالر ہیں۔ جن پر پابندی نہیں لگائی جا رہی۔ درآمدات کا حجم برآمدات کی نسبت 100 گنا سے بھی زیادہ ہے
ماہرین کے مطابق سری لنکا کی طرح پاکستان نے بھی چین پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا لیکن مبینہ طور پر مشکل وقت میں چین نے پاکستان کو مزید قرض نہیں دیا۔ تقریباً پچھلے پانچ سالوں سے سری لنکا نے ملک چلانے کے لیے زیادہ انحصار دوست ممالک کے قرضوں پر کیا تھا اور پاکستان میں بھی پچھلے چار سالوں میں لیے گئے قرض 70 سالوں میں لیے گئے قرضوں سے زیادہ ہیں
ماہرین کہتے ہیں ”جب ملک چلانے کا انحصار تجارت کی بجائے امداد اور قرضوں پر ہو تو قریبی دوست ممالک بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔“
اس حوالے سے ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں ”معشیت کا گراف بتاتا ہے کہ سری لنکا ڈیفالٹ ہونے سے چند ماہ پہلے جس جگہ کھڑا تھا، آج پاکستان بھی اسی جگہ کھڑا ہے“