نوکری سے پیار کرنا سیکھیں، زندگی غلامی ہے!

حسنین جمال

”یار تیرے بھائی کو زندگی ایک موقع دے نا، لات مارے گا اس گھٹیا نوکری پہ اور دیکھنا، اس سے دس گنا زیادہ سیلری پہ کام کرے گا۔ ادھر تو سسٹم ہی خراب ہے، آنے کا ٹائم ہے، جانے کا وقت ہی کوئی نہیں“

ایسی باتیں ہم میں سے کئی لوگ روٹین میں کر رہے ہیں۔ مائنڈ اٹ! یہی ’گھٹیا‘ نوکری آپ کو اس وقت یاد آئے گی، جب خدا نہ کرے آپ کسی دن جاب لیس ہو گئے۔ ایک نوکری سے دوسری نوکری تک کا فاصلہ پاکستان میں اتنا طویل بھی ہو سکتا ہے کہ اس دوران دو حکومتیں آ کے گزر جائیں۔ ایسے میں دفتر کی ایک ایک بات یاد آتی ہے

آپ سوچتے ہیں کہ یار فلاں دن باس سے یوں نہ کہتا تو شاید بات نہ بگڑتی، ایکسپلینیشن والی ای میل پہ تھوڑا ہاتھ ہلکا رکھ لیتا، وہ جو اس دن کولیگ سے منہ ماری ہوئی تھی، میں خود ہی چپ کر جاتا… اور یہ سوچیں تب تک آپ جیب میں لے کر گھومتے رہتے ہیں، جب تک اگلی نوکری سے منتقل ہونے والی تنخواہ ان سوچوں کی جگہ نہیں لے لیتی

انسان مگر نام اسی کا ہے۔ اگلے دفتر جا کے بھی آپ بھول بھال جاتے ہیں اپنی ساری توباؤں کو، اور پھر اسی ٹریک پہ سفر شروع ہو جاتا ہے

بندہ یہ باتیں کیوں کرے؟ آپ تو آزاد ہیں، آزادی مانگنے والی قوم کو غلامی کیوں سکھائی جائے؟ اس لیے کہ نوکری غلامی ہی کا نام ہے!

نوکری غلامی ہے تو کاروبار آزادی ہوگا؟ وہ بھی غلامی ہے۔ جو کام آپ پیسہ کمانے کے لیے کرتے ہیں یا اس سے کوئی بھی فائدے کی امید لگاتے ہیں تو وہ استاد جی! ہے غلامی ہی۔۔۔ نام جو مرضی دے دیں۔ دنیا خیر نری غلامی ہے کیوں کہ مہذب زندگی اس کے بغیر ممکن نہیں، باقی سب باتیں ہیں، نری باتیں!

پیسے کم ملتے ہیں، گزارہ نہیں ہوتا، اوپر والوں کا رویہ ٹھیک نہیں، سارے اسٹاف کو شکایتیں ہیں۔۔۔ یہ سب کیڑے سال چھ ماہ بعد آپ کو ہر جاب میں نظر آئیں گے لیکن یاد رکھیں جاب چھوڑنے کے بعد اپنے مسائل سے نمٹنے والے بھی اکیلے آپ ہوں گے۔ اسٹاف نہیں آئے گا، جو آپ کے ساتھ مل کر یہ سب گاسپ کرتا تھا!

اجتماعی استعفے اتنے ہی نایاب ہیں، جتنی اجتماعی خودکشیاں!

پیر پھنسا کے رکھیں، جاب سوئچنگ ہر انسان کا حق ہے لیکن اگلا اپائنٹمنٹ لیٹر ہاتھ میں آنے سے پہلے پچھلی نوکری کو لات مت ماریں۔ آپ کے پاس دو سال گھر چلانے جتنی بچت موجود ہو پھر بھی ایسا مت کریں۔ کام انسان کو چلاتا ہے، انسان کام کو نہیں چلاتا، یہ ہم سب کی غلط فہمی ہے کہ ہمارے بعد ہماری قدر کی جائے گی، بابا جی کا۔۔۔ آہو!

دوسری بات یہ کہ اگر بہت زیادہ زور سے نوکری تنگ کر رہی ہے تو ایک آدھ ہفتے کی چھٹی لے کے گھر بیٹھ جائیں۔ ساتویں دن کی تیاری پانچویں دن سے شروع نہ کر دی تو نام بدل لیجے گا اپنا! بھائی بے کاری، فرصت، وقت، فراغت اور مہمان، یہ سب تیسرے دن سے برداشت ہونا ختم ہو جاتے ہیں۔ تین سال کی عمر سے آپ اسکول میں داخل ہوئے اور تب سے آج تک ایک سلسلہ چل رہا ہے صبح اٹھ کے گھر سے باہر نکلنے کا، کتنے دن بے مقصد بیٹھ سکتے ہیں؟

کرونا یاد ہے؟ کیسے نوکریوں کے لالے پڑے تھے؟ دو سال ایک پاجامے اور تین قمیصوں میں گزار کے بھی سکون نئیں آیا؟

ہم لوگوں کو اپنے ٹیلنٹ پہ حد سے زیادہ بھروسہ ہے۔ خواہ مخواہ اڑتی ہوئی موٹیویشن پکڑ کے رکھ لیتے ہیں اور اس کے بل پہ ہمیں لگتا ہے اللہ میاں نے ہمیں کوئی بہت ہی خاص کام کے لیے دنیا میں اتارا ہے، یہ چھوٹی موٹی نوکریاں بس ہمارا وقت ضائع کرنے کے لیے ہیں۔ بھائی جان، خاص کام اگر کوئی ہوگا تو اپنے وقت پہ ہو بھی جائے گا، اس کے چکر میں اپنا آج تباہ مت کریں۔ جو بھی کام کرتے ہیں، پوری توجہ سے کر لیں گے تو اسی میں خاص ہونے کا رتبہ بھی مل جائے گا!

دنیا بے شک تجربہ گاہ ہے لیکن ہر بار آپ ہی نے سبجیکٹ کیوں بننا ہے؟ دوسرے کو روسٹ ہوتے دیکھنے کے باوجود اسی سیخ کی طرف کیوں لپکتے ہیں؟ انسان بے شک خسارے میں ہے!

آخر میں ایک ضروری مشورہ لیتے جائیں اور کونے میں پھینک دیں ایز یوژل۔ جب دن رات یہی سوچیں گے کہ آپ تنگ ہیں تو خودبخود تنگ ہونا شروع بھی ہو جائیں گے۔ اچھے کام میں بھی آپ کو سازش نظر آئے گی، دنیا اپنے خلاف لگے گی اور پانی پہ بھی زہر کا گمان ہوگا۔ اگر نوکری کو نوکری سمجھ کے کریں گے، گھر آ کے اسے بھول جائیں گے اور آس پاس والوں کو اپنا ٹیلنٹ ضائع ہونے کی دہائی نئیں دیں گے تو یقین کریں ’ٹیلنٹ‘ بچے نہ بچے، آپ اور آپ کی نوکری بہرحال بچ جائیں گے

غلط وقت پہ چھوڑی گئی نوکری ہزاروں میں سے ایک بندے کو کامیاب کرتی ہے اور اسی ایک کی کہانیاں سنا سنا کر اگلے ہزار ہا بندے اچھلنا شروع کر دیتے ہیں.

بشکریہ: انڈپینڈنٹ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close