پولیو کے مرض میں مبتلا اور ایک غریب کسان کی بیٹی آسو کوہلی نے 2014ع میں صرف تین بچوں کو اپنی جھونپڑی میں فرش پر بٹھا کر اپنے اسکول کا آغاز کیا تھا
آسو کوہلی نے اپنے آبائی ضلع عمرکوٹ میں یہ اسکول وسائل سے محروم غریب بچوں کے لیے قائم کیا تھا۔ انہوں نے گاﺅں گاﺅں جا کر والدین کو آمادہ کرنا شروع کیا کہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں۔ بچوں کی کتابوں اور کاپیوں کا انتظام بھی وہ اپنے محدود وسائل سے کیا کرتی تھیں
کوہلی، بھیل، میگھواڑ اور اوڈ ہندو برادری میں سب سے زیادہ نظر انداز اور محروم طبقہ ہے۔ ان کی بھاری اکثریت زمینداروں کے پاس ہاری کی حیثیت سے کام کرتی ہے، لیکن انہیں اتنا معاوضہ بھی نہیں مل پاتا کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پوری طرح بھر سکیں۔ ان حالات میں تعلیم ان کے لیے اگرچہ صرف ایک خواب ہے لیکن اس کے باوجود ان برادریوں کے کئی بچے اس کی تعبیر پا ہی لیتے ہیں
یاد رہے کہ آسو کی تعلیم کے حوالے سے کوششوں پر نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے انہیں ایک تقریب میں امریکہ بھی بلایا تھا
تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ بجائے آسو کوہلی کی خدمات کا اعتراف اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے ان کے اسکول سے وقتاً فوقتاً سامان چوری کیا جاتا ہے
آسو کوہلی کا کہنا ہے کہ چند روز قبل ہی چوروں نے 150 واٹ کی دو عدد سولر پلیٹوں پر ہاتھ صاف کیا، جن سے اس شدید گرمی کے موسم میں کلاسوں میں پنکھے چلائے جاتے ہیں
’مینا جی بھانی‘ نامی اس گاﺅں میں بجلی کی سہولت بھی لوگوں کے لیے ایک خواب ہے۔ آسو کوہلی نے روتے ہوئے بتایا کہ انہیں کسی نہ کسی طرح پریشان کیا جاتا رہتا ہے۔ کبھی اسکول کے دروازے توڑ دیے جاتے ہیں۔ کبھی پنکھے چوری کر لیے جاتے ہیں اور کبھی فرنیچر توڑ دیا جاتا ہے
بقول آسو: ’پولیس نے کبھی سنجیدگی سے دلچسپی ہی نہیں لی ہے کہ آخر میرے ہی اسکول کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ میں پریشان ہو رہی ہوں۔ اس دفعہ ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کے نام ایک مراسلہ بھیجا ہے کہ صورتحال کا جائزہ لے کر رپورٹ کی جائے‘
انہوں نے بتایا ”میرے خیال میں مجھے اس لیے پریشان کیا جا رہا ہے کہ میں اپنا اسکول بند کر دوں۔ ہمارے علاقے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ غریب کے بچے پڑھے لکھے ہوں“
آسو کے خیال میں تعلیم یافتہ فرد اپنے حقوق کی بات کرتا ہے، جسے یہ لوگ پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں بار بار کہتی ہیں ”ہم غریبوں کے پاس تعلیم ہی تو ایک ہتھیار ہے“
انہوں نے بتایا کہ یونین کونسل ولی داد پلی میں اڑتیس سرکاری پرائمری اسکولوں میں سے اٹھارہ اسکول اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں
اسی یونین کونسل میں آسو کوہلی کا اسکول بھی واقع ہے
جب آسو کے اسکول کا نام مشہور ہوا اور بقول ان کے لوگ اپنے بچوں کو ان کے پاس لے کر آنے لگے تو سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن نے آسو کا اسکول اپنے پاس رجسٹر کرلیا اور اس کی مالی مدد شروع کر دی
آسو نے اسکول کا نام اپنے مرحوم والد کمبو مل کوہلی کے نام پر رکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں ”میرے والد کی ہی کوششوں اور تعلیم میں خصوصی دلچسپی کی وجہ سے میں نے اسکول قائم کیا ہے“
واضح رہے کہ سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن سرکاری سرپرستی میں چلنے والا ادارہ ہے، جو ایسے اسکولوں کی مالی معاونت کرتا ہے، جن کی پہلے سے عمارت تعمیر ہوئی ہوتی ہے اور بچے تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں
سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن اسکول میں موجود بچوں کی تعداد کے پیش نظر اسکول کی مالی مدد کرتی ہے
آسو کے اسکول میں اس وقت ساڑھے تین سو بچے پرائمری میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے ضابطے کے مطابق تعلیم حاصل کرنے والے بچوں سے کسی بھی مد میں کوئی رقم وصول نہیں کی جاتی
آسو کا کہنا ہے ”اسکول میں ساڑھے تین سو بچے پرائمری سیکشن میں ہیں۔ فاﺅنڈیشن انہیں فی بچے کے لیے سات سو روپے ماہانہ کے حساب سے رقم دیتی ہے۔ اس رقم میں سے ہی اسکول کے اساتذہ، چوکیدار، فرنیچر اور مرمت وغیرہ کا کام کروایا جاتا ہے جبکہ سکول میں بارہ مرد ملازم ہیں“
آسو کا کہنا ہے ”علاقے میں دور دور تک تعلیم یافتہ خواتین نہیں ہیں اس لیے مرد حضرات کو ہی ملازم رکھا گیا ہے“
آسو کوہلی سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کی جانب سے ملنے والی رقم میں سے ہی مڈل اسکول بھی چلاتی ہیں
وہ احتیاط سے رقم خرچ کرتی ہیں حالانہ اس طرح کے دیگر کئی اسکولوں کے مالکان اپنے اخراجات کے لیے رقم پس انداز کر لیتے ہیں۔ مڈل کے بچوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے
آسو کا کہنا ہے ”میں نے اپنی مدد آپ کے تحت مڈل اسکول بھی شروع کیا ہوا ہے کیوں کہ پرائمری پاس کرنے کے بعد بچے کنری یا عمر کوٹ نہیں جاسکتے۔ کنری اٹھارہ کلومیٹر اور عمر کوٹ اٹھائیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بچوں کے والدین ان کے سفر کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے“
سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن نے آسو کو یقین دلایا ہے کہ کلاسوں کے کمرے تعمیر کروانے کے بعد مڈل اسکول کو منظور کر لیا جائے گا۔