آخری پاجامہ اور داتا صاحب کا لنگر!

وسعت اللہ خان

جون ایلیا نے مشتاق یوسفی سے کہا ’مرشد فقیری کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ کرتے بائیس ہیں مگر پاجامہ ایک ہی بچا ہے۔‘ یوسفی صاحب نے برجستہ کہا ’اس سے بھی نجات پا لیجیے تاکہ کسی طرف سے تو یکسوئی ہو۔‘

اوروں کا تو پتہ نہیں البتہ ہمیں ذاتی طور پر خوشی ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے آخری سویلین پاجامہ بھی اس امید پر آئی ایس آئی کے حوالے کر دیا کہ کم ازکم ڈیڑھ برس کی یکسوئی تو ہو جائے۔

ویسے کاغذ پر آئی ایس آئی براہِ راست وزیراعظم کے دفتر کو جوابدہ ہے۔ جیسے آئینی طور پر وزیرِ اعظم صدرِ مملکت کو جوابدہ ہے، بحثیت سپریم کمانڈر صدرِ مملکت کو تمام سروس چیفس جوابدہ ہیں۔

جیسے روایتی مشرقی گھرانے کی بیوی اصول کی حد تک شوہر کو جوابدہ ہے۔ جیسے ہمارا سیکریٹری دفاع، وزیرِ دفاع کو جوابدہ ہے، جیسے دفاعی بجٹ پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے، جیسے تمام حساس و غیر حساس ادارے اعلیٰ عدلیہ کو جوابدہ ہیں۔ جیسے منتخب ارکان عام آدمی کو جوابدہ ہیں، جیسے علماِ کرام اللہ میاں کو جوابدہ ہیں۔

اس دنیا میں کہیں بھی فری لنچ نہیں۔ نیوٹرل نہ رہنے کی بھی قیمت ہے اور رہنے کی بھی ۔باز کل سے خود کو کبوتر کہنا شروع کر دے تو باقی پرندے اس کا ادب کرنا چھوڑ دیں گے؟

پٹرول اور ڈیزل پر 80 ارب روپے کی سبسڈی ختم کیے جانے کے اگلے روز دفاعی بجٹ اور دفاعی تنخواہوں میں کل ملا کے 81 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔

ضروری نہیں کہ دفاعی قیادت نے اس کڑکی کے سمے بجٹ میں اضافے کا زبانی یا تحریری مطالبہ کیا ہو۔ مگر نبض شناسی بھی تو کوئی فن ہے۔ یہاں تو ایک سے بڑھ کے ایک نسلی سند یافتہ نباض گھوم رہے ہیں۔

ویسے بھی جو حکومت مانگے کے دو ووٹوں کی اکثریت پر ٹکی ہو، جس حکومت کا انتظامی سربراہ عدالتی ضمانت پر چل رہا ہو اور پیچھے نیب اور ایف آئی اے لگی ہو۔ جس کے بیٹے کی ادھاری وزارتِ اعلیٰ مسلسل معلق ہو۔ آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟

بہت تھو تھو ہوئی تھی جب آصف زرداری نے سنہ 2008 میں کہا تھا کہ ’وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔‘ اب کیا خیال ہے؟

بہت سراہنا ہوئی تھی جب نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے اور یہ کہہ کر کیے تھے کہ اس میثاق پر عمل درآمد کے نتیجے میں سیاستدانوں اور فوج کے درمیان بے ضابطہ سیاسی رابطے منقطع ہو جائیں گے اور ہر ادارے کو اپنے اپنے آئینی دائرے میں رکھنے کا راستہ سیدھا ہو جائے گا۔ اب کیا خیال ہے؟

بہت طعنے دیے گئے عمران خان کو پونے چار سال سلیکٹڈ اور لاڈلا ہونے کے۔ اب کیا خیال ہے؟

پردہِ سکرین پر ہیرو بھلے شاہ رخ خان اور سلمان خان ہی کیوں نہ ہو۔ آخری حرف ڈائریکٹر کا ہی ہوتا ہے کہ کس کو فائنل کٹ میں کتنا دکھانا یا ایڈٹ کرنا ہے۔ ہمارے ہیرو نے اس ڈائریکٹرانہ حقیقت کو تحریری طور پر تسلیم کر کے سویلین جسدِ خاکی سے چپکا آخری انجیری پتہ (فگ لیف) بھی ہٹا دیا۔شکریہ شہباز شریف۔

جس طرح کارخانوں میں پاکٹ یونینوں کا رواج ہوتا ہے۔ سیاست میں یہی کردار اپوزیشن ادا کرتی ہے۔

جھگڑا یہ نہیں تھا کہ زرداری یا نواز شریف نے ملک کھوکھلا کر دیا یا عمران خان نے معیشت تباہ کر دی۔ جھگڑا یہ ہے کہ جب ہم آپ کی قے صاف کرنے کے لیے ہر وقت پوچا لیے حاضر ہیں تو ایک ناتجربہ کار منھ پھٹ اضافی خادم کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ اب تشفی ہو گئی یا کوئی حسرت باقی ہے۔

اب جڑوں میں بیٹھی مراعاتی دیمک کا علاج کرنے کے بجائے خسارے کے درخت سے کفایت شعاری کے پتے جھاڑنے کا ڈرامہ ہو رہا ہے۔ ’وچوں وچ کھائی جاؤ، اتوں رولا پائی جاؤ۔‘

اگر اب بھی بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ سسٹم کیسے چل رہا ہے تو ایک اور آسان مثال سن لیجے۔

ضرورت ہے ایک ملازم کی جسے تنخواہ کے بجائے کھانا اور سر چھپانے کی جگہ ہی ملے گی۔ کام بس اتنا ہے کہ دو وقت داتا صاحب جا کے لنگر کھائے اور واپسی پر مالک کے لیے بھی چاول ڈبل شاپر کروا کے لے آئے۔ اب یہ ملازم خود کو سی ای او سمجھے یا چیف ایگزیکٹو کہہ لے،اس کی مرضی۔ مالک کا کیا جاتا ہے۔

آپ اس کہانی میں داتا صاحب کی جگہ آئی ایم ایف ڈال لیں یا امریکہ، سعودی عرب امارات، چین ڈال لیں۔ میرا کیا جاتا ہے۔

بشکریہ: بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close