سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے لاپتا ہو کر بہاولنگر سے بازیاب ہونے والی دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا ہے
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لڑکی کی عمر کم ہونے کے باعث اغوا کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے
عدالتی احکامات کے بعد دعا زہرہ سے حلفی بیان لیا گیا، جس میں دعا زہرہ نے کہا کہ میں ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں، میری عمر 18 سال ہے اور مجھے اغوا نہیں کیا گیا تھا،
وکیل نے کہا کہ نادرا کا برتھ سرٹیفیکیٹ موجود ہے جس کے مطابق دعا زہرہ 27 اپریل 2008 میں پیدا ہوئی ہیں، اس لحاظ سے اب دعا کی عمر 14 سال اور کچھ دن ہے
عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر کو دعا کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے دعا زہرہ کو شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دے دیا
کراچی کی نو عمر لڑکی دعا زہرہ کا مقدمہ ایسا پہلا مقدمہ نہیں جس میں عدالت نے عمر کے تعین کا حکم دیا ہے، بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں ماضی میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں عمر کے طبی طریقہ کار کے مطابق تعین کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے
اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمر کا تعین طبی طریقہ کار کے مطابق کیسے کیا جاتا ہے اور یہ کتنا مستند ہوتا ہے
عمر کے تعین کا طریقہ کار کیا ہے؟
اس بارے میں کراچی کے جناح ہسپتال کی سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کی عمر کا تعین اس کی ہڈیوں، دانتوں اور پیڑو کی ہڈی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق مختلف معاملات میں مختلف طریقہ کار اپنایا جاتا ہے
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں ”زیادہ تر کلائی کے ایکسرے کے ذریعے کسی بھی شخص کی عمر کا تعین کیا جاتا ہے۔ شعبہ ریڈیالوجی ایک خاص قسم کا ایکسرے کرتا ہے جس سے ہڈی کی عمر کا معلوم ہوجاتا ہے۔ یہ سو فیصد درست تو نہیں ہوتا لیکن بہت زیادہ حد تک درست ہوتا ہے، جس سے عمر کے تعین میں خاصی مدد ملتی ہے“
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے سابق ریڈیالوجسٹ اور لقمان انٹرنیشنل ہسپتال میں کنلسٹنٹ ڈاکٹر فضل ربی کا کہنا ہے ”عمر کے تعین کے لیے بنیادی طور پر تین طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن میں پہلا ہڈیوں کے تجزیے، دوسرے دانتوں کے ذریعے اور تیسرا طریقہ دانتوں سے سپارٹک ایسڈ کے لیول کو دیکھا جاتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ تیر بہدف دانتوں کا تجزیہ ہے۔‘
ڈاکٹر فضل ربی نے بتایا ”12، 14، 16 اور 18 سال کی عمروں میں نکلنے والے دانت واضح کر دیتے ہیں کہ انسان کی عمر کیا ہو سکتی ہے۔ دانتوں کے اپنے نام ہوتے ہیں جن میں فرسٹ مولر، سیکنڈ مولر اور تھرڈ مولر دانت ہوتے ہیں۔ تھرڈ مولر عموما اٹھارہ سال کی عمر سے ہی شروع ہوتا ہے۔ ڈینٹل سرجن عام طور پر شناختی کارڈ یا ’ب‘ فارم میں درج عمر دیکھ کر تعین کرتا ہے کہ اگر کسی شخص کا تھرڈ مولر دانت نکل آیا ہے تو اس کی عمر واقعی اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے لیکن یہ کوئی پتھر پر لکیر نہیں ہے کچھ لوگوں کا تھرڈ مولر اٹھارہ سال کے بعد بھی ’ارپٹ‘ ہوتا ہے“
ڈاکٹر فضل کا کہتے ہیں ”عمر کے تعین کے لیے کیے جانے والے ٹیسٹ ایک یا دو سال کے عمر کے فرق کو تو کافی حد تک واضح کرسکتے ہیں لیکن چند مہینوں کا فرق ناپنا ممکن نہیں ہے البتہ اگر کوئی ماہر ہو تو وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر کچھ کہہ سکتا ہے۔ ٹیسٹ کی بنیاد پر بالکل درست عمر کا تعین ممکن نہیں ہے“
ریڈیالوجسٹ نے بتایا ”اگر دانتوں کے معائنے یا ٹیسٹ پر شک ہو تو پھر کلائیوں یا ہڈیوں کا ایکسرے کیا جاتا ہے. ہڈیوں کی ایک ’مچیورٹی‘ ہوتی ہے۔ ہڈی کا ’ایفیفیسز‘ (ہڈی کا سرا اور اس کے بعد اس کے شافٹ) کی آپس میں جڑنے کے عمر کو دیکھا جاتا ہے۔ انسانی جسم میں سب سے آخر میں ہنسلی کی ہڈی میچیور ہوتی ہے جس کے انسان کی عمر کا معلوم ہو سکتا ہے“
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کے جنسی اعضا کے معائنے اور ہڈیوں اور دانتوں کے تجزیوں کے بعد کسی بھی انسان کی عمر کا 95 فیصد تک درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے
ڈاکٹر فضل ربی کے مطابق ہڈیوں کے سروں کا اس کے شافٹ یا درمیانے حصے کے ساتھ جڑنے کی عمر (فیوژن) کا تعین بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر انسان کا ایک جیسا ہو لیکن اس میں زیادہ فرق نہیں ہوتا
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عام طور پر پڑھے لکھے گھرانوں میں عمر کم لکھوائی جاتی ہے۔ ان کے پاس ایسے کیسز آتے ہیں جن میں تعلیم یافتہ گھرانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بچوں یا نوجوانوں کی عمر کم لکھوائی جائے تاکہ سرکاری یا غیر سرکاری ملازمتوں میں زیادہ عرصہ تک رہ سکیں
اس کے برعکس مزدوری پیشہ افراد اپنے بچوں کی عمریں زیادہ کروانے کے لیے اکثر ٹیسٹ کراتے ہیں تاکہ کم عمری میں ہی انہیں زیادہ عمر کا دکھا کر مزدوری کرائی جاسکے۔ زیادہ تر بیرون ملک جانے والے مزدوری پیشہ افراد ایسے ٹیسٹ کرانے آتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی عمر کسی طرح اکیس سال دکھا دی جائے تاکہ وہ بیرون ملک مزدوری کے عمر کی شرط کو پورا کر سکیں
پاکستان میں عدالت کو شاید پہلی بار کسی کے عمر کے تعین کی ضرورت پڑی ہو لیکن پاکستان میں ہی کھیل کے شعبے میں یہ ضرورت اسی سال محسوس کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی کھیل کے شعبے میں عمر کے تعین کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں
حال ہی میں 17 جنوری 2022 کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے عمر کے دھوکہ دہی کے خدشات کی بنیاد پر قومی انڈر 13 اور انڈر 16 ٹورنامنٹس کو معطل کر دیا تھا
پی سی بی کا کہنا تھا کہ وہ ہڈیوں کے ذریعے عمر کی تصدیق کے مزید ٹیسٹ کرانے کے بعد ٹورنامنٹ کا تیسرا راؤنڈ منعقد کرے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ’متعلقہ عمر کے گروپ مقابلوں میں صرف مستحق کرکٹرز ہی شامل ہوں‘
ندیم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’بصری تشخیص کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ کچھ زائد العمر کرکٹرز انڈر 13 اور انڈر 16 ٹورنامنٹس میں حصہ لے رہے تھے، ایونٹس کو معطل کرنا اور ہڈیوں کی ذریعے عمر کے نئے ٹیسٹ کروانا بالکل درست کام تھا۔ل‘
یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ نیشنل لائبریری آف میڈیسن میں 8 مارچ 2007ع میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں فٹبال کے بین الاقوامی انڈر 17 مقابلوں کے شرکا کی کلائی کا ایم آر آئی کرانے کے مقاصد اور ان کے نتائج موجود میں
مقالے میں لکھا گیا ”189 کھلاڑیوں کے کلائیوں کے ایم آر آئی اسکین کیے گئے، جو 2003ع اور 2005ع کے ورلڈ کپ کے انڈر 17 مقابلوں میں حصہ لے رہے تھے“
مقالے کے مطابق جو نتائج سامنے آئے اس میں 71 فیصد کھلاڑی سترہ سال کی عمر سے زیادہ تھے، جن کے ہڈیوں کے فیوژن اس عمر میں ہونے والے فیوژن سے زیادہ مکمل تھے
اس مقالے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ انڈر 17 کے فٹبال کے کھلاڑی اسی عمر کی آبادی کے دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ میچور تھے
یہ بات بھی سامنے آئی کہ سرکاری دستاویز میں کھلاڑیوں کی جو عمر لکھی گئی تھی، وہ ٹیسٹ کے نتائج سے میل نہیں کھا رہی تھی اور تمام کھلاڑیوں کے معاملے میں درست بھی نہیں تھی۔