روس نے یوکرین سے جنگ شروع کرنے کے بعد پہلے سو دنوں میں ایندھن کی برآمدات سے 93 بلین ڈالر کا خطیر زرمبادلہ حاصل کیا
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دنیا بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات پر نظر رکھنے والے ادارے کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود روس سے پیٹرول خریدنے والوں میں امریکی حلیف اور یورپی ممالک بھی شامل ہیں
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرین سے جنگ کے پہلے ایک سو دنوں کے دوران روس کی پیٹرولیم مصنوعات ک برآمدات 93 ارب ڈالر تک رہی اور سب سے زیادہ پیٹرول خود یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف سے خریدا گیا
امریکی دباؤ کے باوجود چین نے بھی بھاری مقدار میں پیٹرول روس سے خریدا ہے، اسی طرح بھارت نے بھی روس سے سستے داموں پیٹرول درآمد کیا ہے
خیال رہے کہ امریکا کی تیل کی خریداری پر پابندی کے بعد سے روس نے ردعمل میں پیٹرول خریدنے والے ممالک کو رعایتی قیمتوں پر ایندھن کی پیشکش کر رکھی ہے
یہ رپورٹ اس وقت شائع ہوئی ہے جب یوکرینی صدر نے مغربی ممالک سے روس کے ساتھ تجارتی روابط ختم کرنے اور پیٹرول کی خریداری پر پابندی کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے اور امریکا نے اپنے حلیفوں کو روس سے پیٹرول نہ خریدنے کی اپیل کی ہے
ادہر پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ سیاسی وجوہات کی بنا پر بھی روس سے تیل کی درآمد بحث کا موضوع ہے
پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت کی جانب سے سستے روسی تیل کی خریداری کے اعلان اور اس کے بعد موجودہ شہباز سرکار کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے گزشتہ دنوں امریکی ٹی وی چینل سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو کے بعد بھی یہ معاملہ زیرِ بحث رہا
سی این این کی میزبان بیکی اینڈرسن کے روسی تیل کی خریداری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ حکومت نے روس کو خط لکھا تھا جس کا جواب نہیں آیا۔ اب تک روس نے تیل فروخت کرنے کی کوئی پیشکش بھی نہیں کی اور اس وقت اس پر پابندیاں عائد ہیں، تو میرے لیے یہ سوچنا مشکل ہے کہ ہم روس سے تیل خرید سکتے ہیں‘
مفتاح کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے روس سے سستا تیل خریدنے کی اعلانیہ پیش رفت اور ابھی حال ہی میں مفتاح اسماعیل کے اس انٹرویو کے بعد روس نے ایک بار پھر اپنی پیشکش کو دہرایا ہے
مفتاح کے انٹرویو کے بعد اپنی پیشکش دہرانے سے ایک طرف جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ روس نے سابق حکومت کو تیل فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان بھارت کی پیروی کرتے ہوئے روس سے رعایتی نرخوں پر تیل درآمد کرنے کی ہمت جُٹا پائے گا۔