کراچی: بلوچ طلبا کی گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 28 افراد زیر حراست دو جبری گمشدہ بلوچ طلبا بازیاب

ویب ڈیسک

پولیس نے کراچی یونیورسٹی کے ’لاپتا‘ بلوچ طلبہ اور ’جبری گمشدگیوں‘ کا شکار ہونے والے دیگر متاثرین کے حق میں سندھ اسمبلی کے مرکزی گیٹ کے قریب مظاہرہ کرنے والی خواتین سمیت اٹھائیس افراد کو حراست میں لے لیا

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے دو طالب علم دودا بلوچ او غمشاد بلوچ کو 7 جون کو گلشن اقبال میں مسکن چورنگی کے قریب ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا اور اس کے بعد سے ان کا کوئی پتا نہیں چل سکا

ان کے اہلِ خانہ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے گزشتہ چار روز سے کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے باہر احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا اور اتوار کی شام پریس کلب سے صوبائی اسمبلی تک احتجاجی ریلی بھی نکالی تھی

پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین سے بات چیت کی، انہیں جگہ خالی کرنے پر آمادہ کیا جب کہ آج بروز پیر صوبائی اسمبلی میں بجٹ اجلاس ہونا تھا

ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا کے بقول پولیس نے پیر کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 19 مرد اور 9 خواتین کو حراست میں لیا جب کہ پولیس افسر نے اس بات سے انکار کیا کہ مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین پولیس اہلکاروں نے خواتین مظاہرین کو حراست میں لیا

اس دوران احتجاج کے منتظمین نے پولیس پر خواتین اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا

مظاہرین کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس لاپتا طالب علموں کے لواحقین کی محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں سے ملاقات کرانے کے اپنے وعدے سے مکر گئی، اس لیے انہوں نے دوبارہ سندھ اسمبلی کی عمارت کے قریب دھرنا دیا جہاں پولیس نے مظاہرین کو حراست میں لیا

قبل ازیں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں اور مختلف تنظیموں کے ارکان، جن میں سماجی کارکنان سمی دین بلوچ، عبدالوہاب بلوچ، آمنہ بلوچ، نغمہ شیخ اور دیگر شامل تھے، انہوں نے شام 4 بج کر 50 منٹ پر کے پی سی سے اسمبلی کی عمارت کی جانب اپنا مارچ دوبارہ شروع کیا، جہاں بجٹ اجلاس جاری تھا، سرور شہید روڈ سے گزرتے ہوئے انہوں نے اسمبلی کے گیٹ کے سامنے دھرنا دیا

وہاں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سمی بلوچ نے کہا کہ طلبہ کو لے جانا تعلیمی اداروں کے کردار کے قتل کے مترادف ہے

سمی دین بلوچ نے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب پر زور دیا کہ وہ دونوں طالب علموں کو بازیاب کرائیں، انہوں نے اعلان کیا کہ مظاہرین لاپتا طلبہ کی رہائی تک اسمبلی کے باہر اپنا مظاہرہ جاری رکھیں گے

دوسری جانب سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک کر رہی ہے اور انہیں منتشر کرنے کی کوشش کر رہی ہے

ایمان مزاری نے ٹویٹر پر ایک وڈیو شیئر کیا  جس میں سندھ کی جانب سے  بلوچ خواتین  کو تشدت اور ان کے  ساتھ نارواسلوک کیا جارہا ہے ایما مزاری نے   کہا ہے کہ : آپ کو لگتا ہے کہ اس پر کوئی ردعمل نہیں آئے گا؟ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں

پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے پولیس کی جانب سے غیر متناسب طاقت کے استعمال اور خواتین کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایسا سلوک انتہائی پریشان کن ہے

واضح رہے کہ نہ صرف سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے بلکہ وہ وفاقی اتحادی حکومت کا بھی حصہ ہے

انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری نے صورتحال کو بربریت قرار دیا

ایم پی اے ثناء اللہ بلوچ نے سندھ پولیس کی جانب سے بے گناہ اور پرامن بلوچ خواتین اور طالبات کے خلاف تشدد کے شدید اور غیر انسانی فعل کی شدید مذمت کی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت واقعے کی تحقیقات کرے

قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ سندھ کی سرزمین بلوچ برادری کے خلاف تشدد کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

ذرائع کے مطابق رات دیر تک بلوچ مظاہرین جن میں مرد و خواتیں شامل ہیں اور عوامی ورکر پارٹی کے خرم علی کو تھانے سے ریلیز کردیے گئے ہیں، جبکہ  ایک اور ذرائع  کے مطابق دودا بلوچ او غمشاد بلوچ بھی بازیاب ہوئے ہیں

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close