پرویز مشرف کی واپسی: جسٹس وقار سیٹھ کا فیصلہ اور سینیٹ میں بحث

ویب ڈیسک

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی جانب سے سیاسی مخالف اور سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کو وطن واپس آنے پر حکومت کی جانب سے سہولت فراہم کرنے کے بیان کے بعد حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے سینیٹرز کی جانب سے بحث کی گئی کہ آیا سابق صدر کو وطن واپس آنے کی اجازت دی جانی چاہیے یا نہیں

یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا ”مشرف کی واپسی کا فیصلہ ہم نہیں کریں گے، یہ فیصلے کہیں اور ہوں گے“

واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو پاکستان آجانا چاہیے

ان کے اس بیان کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف نے ٹوئٹر پر کہا اگر وہ واپس آنا چاہیں، تو حکومت سہولت فراہم کرے

جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے لکھا کہ جنرل مشرف کو وطن واپس آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ نے خصوصی عدالت کے ایک فیصلے میں سابق صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی، تاہم اس فیصلے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دے دیا تھا

پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ملک کے سیاسی و قانونی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی تھی جس کی بنیادی وجہ اس تفصیلی فیصلے کا پیراگراف نمبر 66 تھا، جسے جسٹس سیٹھ نے تحریر کیا تھا

پیراگراف 66 میں بینچ کے سربراہ جسٹس سیٹھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ جنرل مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عمل درآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے

تاہم اس سے اگلے پیرگراف 67 میں اپنے اس حکم کی توجیہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے، اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عمل درآمد ہو گا یا نہیں اور کیسے ہوگا

اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دے دیا

آج چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا، ایوان بالا میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی وطن واپسی کا معاملہ زیر بحث آنے پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا ”یہ فیصلہ ہم نہیں کریں گے یہ فیصلے کہیں اور ہوں گے، جب وہ باہر گئے تھے تو کیا آپ روک سکے تھے اور جب وہ واپس آئیں گے تو کیا آپ روک سکیں گے، اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک فضول عمل ہے“

انہوں نے کہا کہ میں پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں جیل میں رہا ہوں لیکن جب میں وزیر اعظم بنا تو انہوں نے ہی میرا حلف لیا تھا، جب پرویز مشرف یہاں تھے تو میں نے انہیں معاف کردیا تھا، اگر وہ آنا چاہتے ہیں تو آجائیں پاکستان ان کا گھر ہے، ہمیں ان کی واپسی پر کوئی اعتراض ہے لیکن سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے

دورانِ اجلاس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پرویز مشرف اس ملک کے باشندے ہیں، وہ بیمار ہیں، اگر آنا چاہتے ہیں تو انہیں آنے دینا چاہیے

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ پرویز مشرف کو واپس لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس سے متعلق میاں نواز شریف کا بھی بیان آیا ہے

ان کا کہنا تھا ”اس ملک اور آئین کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے، ہم مجبور ہیں ہمارے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں اور ہم عملاً غلام ہیں“

پرویز مشرف کے دور حکومت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ دس سالوں تک سیاہ و سفید کے مالک رہے، انہوں نے دو بار آئین توڑا اور عدلیہ پر شب خون مارا

مشتاق احمد نے کہا کہ ان کے دور میں سابق چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا، اس سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا فیصلہ موجود ہے

انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو فروخت کردیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کے 140 ارب ڈالر کا نقصان کیا

جماعت اسلامی کے سینیٹر نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ ملک کے تمام شہری اپنے جرائم پر قانون کا سامنا کریں، انہیں واپس لایا جائے تاکہ وہ بھی قانون سامنا کریں، میں نواز شریف سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی آئیں اور قانون کا سامنا کریں

ان کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف کو لایا جاتا ہے تو پھر جیلوں کے دروازے کھول دیں، عدالتوں کو بند کردیں کیونکہ اس امر کے بعد عدالتوں اور اس ایوان کی کوئی ضرورت نہیں ہے

سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا کہ پرویز مشرف یا جو لوگ دو ہفتوں کا کہہ کر ملک سے گئے تھے، انہیں واپس آنا چاہیے، میں پرویز مشرف کی واپسی کا مخالف نہیں ہوں، واپس آئیں لیکن قانون کو اپنا راستہ اپنانا چاہیے

ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص کے لیے ایک جیسا قانون ہو تو ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے

دوران اجلاس خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام ف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اس وقت وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں، اس وقت اگر ہم یہ کہیں کہ وہ وطن واپس نہ آئے تو یہ مناسب نہیں ہوگا

اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ چاہے کوئی بڑے سے بڑا آمر ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ انتقال کر جائے تو اس پر خوشی کا اظہار نہیں کرتے، لہٰذا پرویز مشرف کو ملک میں آنے کی اجازت دینی چاہیے

ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے آئین توڑا اور ان کے خلاف عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے، لیکن اگر وہ انتقال کر جاتے ہیں تو انہیں ملک میں دفن کرنے کی اجازت دینی چاہیے، یہ ان کا حق ہے

خیال رہے کہ 10 جون کو سوشل میڈیا پر سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے انتقال کی خبریں گردش کر رہی تھی جن کے اہل خانہ نے جمعہ کے روز واضح کیا تھا کہ وہ وینٹی لیٹر پر نہیں ہیں لیکن گزشتہ تین ہفتوں سے ہسپتال میں داخل ہیں

ریٹائرڈ جنرل کی بیماری کی خبریں 2018 میں سامنے آئی تھیں جب آل پاکستان مسلم لیگ نے اعلان کیا تھا کہ وہ امائلائیڈوسس’ (Amyloidosis) کی بیماری میں مبتلا ہیں

امائلائیڈوسس کم پائی جانے والی سنگین صورتحال کا نام ہے جو پورے جسم کے اعضا اور ٹیشوز میں امائلائیڈ نامی پروٹین کے پیدا ہونے سے ہوتی ہے، اس پروٹین کے بننے سے اعضا اور ٹیشوز کے لیے مناسب طریقے سے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے

گزشتہ روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے تصدیق کی تھی کہ پرویز مشرف کا خاندان پاکستان واپسی کے حوالے سے فوج سے رابطے میں ہے

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ادارے اور اس کی قیادت کا مؤقف ہے کہ پرویز مشرف کو واپس آجانا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close