لوگوں کی خبروں میں دلچسپی کم کیوں ہو رہی ہے؟

ویب ڈیسک

روئٹرز انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے مایوس کن حالات کی وجہ سے لوگوں میں خبروں کے حوالے سے پائی جانے والی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے

برطانوی تحقیقی گروپ کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وبا، روس یوکرین جنگ اور روزمرہ زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے مشترکہ اثرات کی وجہ سے خبروں میں لوگوں کی دلچسپی کم ہو رہی ہے

چھیالیس ممالک میں کیے گئے اس سروے میں مجموعی طور پر ترانوے ہزار افراد شریک ہوئے، اس میں سامنے آیا کہ خبروں سے گریز کرنے والوں کی شرح بڑھ کر 38 فیصد ہوگئی ہے، جو 2017ع میں 29 فیصد تھی

برازیل (54 فیصد) اور برطانیہ (46) سمیت بعض ممالک میں یہ تعداد دگنی ہو گئی ہے

رپورٹ کے مطابق خاص طور پر نوجوان خبروں کو مایوس کن سمجھتے ہیں لیکن خبروں کو نظر انداز کرنے کی وجہ بڑی وجہ ان کا بار بار دہرایا جانا ہے، بالخصوص کرونا وبا اور سیاست کے متعلق خبریں

ایک ستائیس سالہ برطانوی شہری نے محققین کو بتایا ”میں ان چیزوں یا سرگرمی سے گریز کرتا ہوں جو میری پریشانی اور ایسی چیزوں کو متحرک کرتی ہیں جس سے میرا دن خراب ہو۔ میں اموات اور آفات جیسی چیزوں کے بارے میں خبریں پڑھنے سے گریز کرنے کی کوشش کروں گا“

کئی دوسرے افراد کا کہنا تھا ”خبروں کی وجہ سے ایسے دلائل سامنے آئے, جن سے وہ گریز کریں گے یا بے بس محسوس کریں گے“

جب کہ بہت سے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ اسے سمجھنا مشکل ہے

رپورٹ کے مرکزی مصنف این آئی سی نیومین نے کہا کہ یہ نتائج ’خاص طور پر خبروں کی صنعت کے لیے چیلنجنگ‘ ہیں

ان کے حوالے سے کہا گیا کہ صحافی جن موضوعات کو سب سے اہم سمجھتے ہیں مثلاً سیاسی بحران، بین الاقوامی تنازعات اور عالمی وبا، یہی لوگوں کو خبر سے دور کر رہے ہیں

رپورٹ کے حوالے سے زیادہ تر تحقیق فروری میں یوکرین پر حملے سے پہلے مکمل کرلی گئی تھی، لیکن اس کے بعد پانچ ممالک میں ہونے والے سروے سے معلوم ہوا کہ یہ رجحان جنگ کے بعد مزید بڑھ گیا ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سروے میں شامل نصف ممالک میں میڈیا پر اعتماد کم ہوا اور صرف سات میں اضافہ ہوا

امریکہ میں لوگوں نے میڈیا پر سب سے کم اعتماد کا مظاہرہ کیا جو 26 فیصد ہے اور سلوواکیہ کے برابر رہا

رپورٹ کے مطابق ذرائع ابلاغ سے تیزی سے لاتعلق ہوتے نوجوانوں کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید بڑھ رہا ہے اور اٹھارہ سے چوبیس سال کے پندرہ فیصد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ ٹک ٹاک کو خبروں کے بنیادی ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close