مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کی جانب سے ایک نیا فیچر آزمایا جارہا ہے جس کے ذریعے صارفین ڈھائی ہزار الفاظ تک ’نوٹس‘ شیئر کر سکیں گے
اس طرح ٹوئٹر پر ’نوٹس‘ فیچر کا مقصد صارفین کو 280 الفاظ کے بجائے لمبی تحریر لکھنے کی سہولت فراہم کرنا ہے
صارفین کو طویل عرصے سے اس فیچر کا انتظار تھا، کیونکہ فی الحال ٹوئٹس کے لیے صارفین کو دو سو اَسی سے زائد حروف کے استعمال کی اجازت حاصل نہیں ہے
ٹوئٹر کے ذیلی ادارے ٹوئٹر رائٹ کے مطابق ’ٹوئٹر لمبی تحریر لکھنے سے متعلق تجربہ کر رہا ہے۔‘
ٹوئٹر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ اقدام اس پلیٹ فارم پر صارفین کی جانب سے طویل اعلانات کے لیے تصاویر پوسٹ کرنے یا ٹوئٹس میں ٹوئٹر سے باہر نیوز لیٹرز کے لنکس شامل کرنے کے ردعمل میں اٹھایا گیا ہے
یہ آزمائشی تجربہ دو ماہ تک جاری رہے گا جس میں کینیڈا، گھانا، برطانیہ اور امریکا کے صارفین کا ایک مختصر گروپ شامل ہوگا
اس نئے فیچر کا مقصد صارفین کو ٹوئٹر کے ایکو سسٹم میں رکھنا ہے، جس کے ذریعے صارفین طویل نوٹ کی سرخی دیکھ سکیں گے اور لنک پر کلک کر کے مکمل نوٹ تک رسائی حاصل کر سکیں گے
کمپنی کی جانب سے اس نئے فیچر کا استعمال کرتے ہوئے اعلان میں کہا گیا ”کمپنی کے ابتدائی روز سے لکھاریوں نے اصل تحاریر کے سوا اپنا کام شیئر کرنے، توجہ حاصل کرنے، پڑھے جانے اور گفتگو سمیت ہر چیز کے لیے ٹوئٹر پر انحصار کیا، نوٹس فیچر متعارف کروانے کا مقصد اس کمی کو بھی دور کرنا ہے“
واضح رہے کہ یہ اقدام ٹوئٹر کی جانب سے گزشتہ سال ’ریویو‘ کی خریداری کے بعد سامنے آیا ہے، جو کہ ایک ڈچ نیوز لیٹر اسٹارٹ اپ ہے
گزشتہ روز ٹوئٹر کی جانب سے کہا گیا کہ وہ ریویو کو نئے فیچر ’نوٹس‘ میں ضم کررہے ہیں جو صارفین کو جفس، تصاویر اور دیگر خصوصیات کو طویل مضامین میں شامل کرنے کی اجازت دیتا ہے جنہیں ٹوئٹر پر اور اس سے باہر پڑھا جا سکتا ہے، نوٹ شائع ہونے کے بعد صارفین ان میں ترمیم بھی کر سکیں گے
ٹوئٹر کے اس نئے فیچر پر ماہرین اورصارفین بھی تبصرے کر رہے ہیں
سوشل میڈیا ماہر ڈاکٹر لورا ٹوگوڈ نے کہا ”اس نئے فیچر کا ٹرائل ٹوئٹر کے لیے ایک اہم قدم ہے، یہ فیچر صارفین کو طویل مضامین کی سہولت فراہم کرنے والی دوسری ویب سائٹس کا لنک شامل کرنے کی بجائے ٹوئٹر پر ہی رہنے کی ترغیب دے گا“
انہوں نے کہا ”اس نئے فیچر کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹوئٹر اب بلاگنگ کے کچھ مقبول پلیٹ فارمز کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے اور ممکنہ طور پر نئے اور متنوع صارفین کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے“
ڈاکٹر لورا ٹوگوڈ کا کہنا تھا ”یہ فیچر موجودہ صارفین کو بلاگ لکھنے کے لیے دوسری ویب سائٹس پر جانے کی بجائے ٹوئٹر پر ہی بلاگنگ کی ترغیب دے گا جس سے ٹوئٹر صارفین کی اس پلیٹ فارم پر موجودگی برقرار رکھنے میں مدد ملے گی“
یاد رہے کہ 2017 میں ٹوئٹر نے صارفین کے ایک مختصر گروپ کے ساتھ آزمائش کے بعد ٹوئٹس کے لیے حروف کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو 140 سے بڑھا کر 280 کر دیا تھا
حالیہ اقدام ٹوئٹر کے کاروباری امکانات کی جانچ کے درمیان سامنے آیا ہے، کیونکہ ایلون مسک کی جانب سے کمپنی خریدنے کی منصوبہ بندی کے پیش نظر اس حوالے سے سوالات پیدا ہوئے ہیں
ٹوئٹس کے لیے ایڈٹ بٹن کے فیچر کا مطالبہ کرنے والے ایلون مسک کی جانب سے ٹوئٹر کے بڑے شیئرز خریدنے کا ارادہ ظاہر کرنے کے بعد ٹوئٹر نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ ایڈٹ بٹن پر کام کیا جارہا ہے، تاہم کمپنی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان دونوں واقعات کا کوئی باہمی تعلق نہیں ہے
ایلون مسک نے ٹوئٹر کے لیے سبسکرپشن ماڈل میں بھی دلچسپی ظاہر کی تھی، جس کے تحت صارفین کو اس پلیٹ فارم کے استعمال کے لیے قیمت ادا کرنا ہوگی
یونیورسٹی آف الینوائس اربانا–شیمپین میں جرنلزم کی پروفیسر ڈاکٹر نکی عشر نے کہا کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ ٹوئٹر منافع کے لیے نئے فارمیٹس آزما رہا ہے یا حقیقتاً پلیٹ فارم کو بہتر بنانے کا خواہشمند ہے
انہوں نے بتایا کہ اس معاملے میں ایک چیز جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ لوگ آن لائن لمبی تحریریں پڑھنا پسند نہیں کرتے
انہوں نے مزید کہا ”میرے خیال میں صارفین کو ڈھائی ہزار حروف کے استعمال کی سہولت دینے سے بالآخر سروس کے معیار میں فرق پڑنے کا امکان نہیں ہے، تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدام کمپنی میں کچھ بڑی تبدیلیوں سے پہلے سرخیوں میں جگہ بنانے کے لیے ہے“
جیمی نامی صارف نے ٹویٹ کیا کہ ’ہمیں صرف ایڈٹ بٹن چاہیے، نا کہ یہ!‘
ایڈے والے نامی ایک صارف کہتے ہیں ”یہ میڈیم کی طرح زیادہ لگ رہا ہے، لیکن ٹوئٹر کا فیچر ہے۔ کیا یہ ٹوئٹر تھریڈز کا اختتام ہو گا؟“
میگی نامی ایک صارف لکھتی ہیں ”یہ شاید اب لوگ تھریڈز لکھنے ختم کر دیں۔ وہ اب بلاگ لکھ سکتے ہیں“
نوٹس کے بارے میں ابتدائی اطلاعات یہ ہیں کہ یہ فیچر ٹوئٹر صارف کی پروفائل پر ٹویٹس اینڈ ریپلائز اور میڈیا کے بٹن کے درمیان لگایا جائے گا
خیال رہے ٹوئٹر کا ’نوٹس‘ نامی نیا فیچر ابھی تک صرف تجربے کے مرحلے میں ہے، جسے عام صارفین کے لیے فعال نہیں کیا گیا۔