لاؤڈ اسپیکر نے معاشرے کے سرکردہ رہنماؤں کو سیاسی، سماجی اور ثقافتی اور مذہبی دائروں میں اثر و رسوخ حاصل کرنے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے
لاؤڈ اسپیکر کو کسی زمانے میں قابل ذکر افادیت کی تکنیکی ایجاد کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مساجد کے اونچے میناروں میں نصب لاؤڈ اسپیکر (مکبیرِ صوت) پچھلی کئی دہائیوں میں اس کی ظاہری عمارت کا لازمی حصہ بن چکا ہے
تاہم علمائے کرام کی جانب سے ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد اس نے مذہبی ماحول کے ایک لازم و ملزوم حصے کے طور پر قبولیت کیسے حاصل کر لی
سعودی عرب بھی میں پہلی بار جب لاؤڈ اسپیکرز کا استعمال کیا گیا، تو اس پر لوگوں کا رد عمل شدید تھا
اس ضمن میں سعودی عرب کے ایک مورخ ’محمد القشعمی‘ نے سعودی ٹی وی چینل کو اپنی یاداشت بیان کرتے ہوئے بتایا ”ریاض میں پہلے لاؤڈ اسپیکر کے تجربے کے دوران لوگ گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے تھے“
عاجل نیوز کے مطابق سعودی مورخ کا کہنا تھا کہ 1973ع میں شاہ عبدالعزیز کے انتقال کے بعد پہلی بار ریاض شہر میں لاؤڈ اسپیکر کے تجربے کے دوران لوگوں کا رد عمل شدید تھا، جس وقت لاؤڈ اسپیکر سے آواز بلند ہوئی لوگ پریشان ہو کر چھتوں پر چڑھ گئے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے“
’القشعمی‘ کا مزید کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر لوگوں نے لاؤڈ اسپیکر کو قبول نہیں ہی کیا بلکہ اسے ’منکر‘ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے استعمال کو ناجائز قرار دیا
ریڈیو نشریات کے بارے میں سوال پرالقشعمی کا کہنا تھا کہ اس وقت لوگوں کے ذہنوں میں ہر ایسی چیز کا استعمال حرام تھا، جس سے وہ واقف نہیں تھے اور اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔