دنیا کی بڑی اور مشہور آئس کریم بنانے والی کمپنی ’بین اینڈ جیری‘ نے اپنی ’پیرنٹ کمپنی‘ یونی لیور کے فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں قائم یہودی بستیوں میں آئس کریم کی فروخت جاری رکھنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے
بین اینڈ جیری فرم کا کہنا ہے کہ اُس کا خیال ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آئس کریم کی فروخت اس کی کارروباری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی
فلسطینی عوام نے بین اینڈ جیری کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے
واضح رہے کہ گزشتہ سال بین اینڈ جیری کی طرف سے یہودی بستیوں میں اپنی آئس کریم کی فروخت بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو اب اس کی پیرنٹ کمپنی کو یونی لیور نے واپس لیا ہے
اسرائیل نے یونی لیور کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے ”یہ یہودیوں کے خلاف امتیاز اور نفرت کی جدوجہد میں ایک فتح ہے“
یونی لیور کا یہ فیصلہ اس کے اسرائیلی لائسنس یافتہ امریکن کوالٹی پروڈکٹس (اے کیو پی) اور اس کے مالک ایئو زنگر کی طرف سے قانونی کارروائی کے بعد آیا، جو کہ برطانیہ میں قائم ’کنزیومر گڈز‘ کمپنی سے ہرجانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا معاہدہ ویسے بھی اس سال کے آخر میں ختم ہونا تھا
امریکہ میں سرگرم سرمایہ کار نیلسن پیلٹز اور سیاست دانوں سمیت شیئر ہولڈرز کی جانب سے واپسی کے خلاف دباؤ بھی تھا
یونی لیور نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ وہ اب اسرائیل میں اپنے بین اینڈ جیری کے کاروباری مفادات مسٹر زنگر کو فروخت کر رہی ہے
نئے انتظام کا مطلب یہ ہے کہ بین اینڈ جیری کو اس کے عبرانی اور عربی ناموں سے پورے اسرائیل اور غرب اردن میں موجودہ لائسنس یافتہ کی مکمل ملکیت میں فروخت کیا جائے گا
مسٹر زنگر نے یونی لیور اور اسرائیلی حکومت کے اس معاہدے پر پہنچنے پر ان کی حمایت کا شکریہ ادا کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں آئس کریم ’ہمیشہ کے لیے‘ فروخت کرنے کا حق مل گیا ہے۔ لیکن اس نے بین اینڈ جیری کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کرنے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا
ایک بیان میں انہوں نے کہا ”آئس کریم کی تجارتی فروخت میں امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میرے لیے یہ یقینی بنانا ہمیشہ اہم رہا ہے کہ تمام صارفین، چاہے ان کی شناخت کچھ بھی ہو، بین اینڈ جیری کی آئس کریم سے لطف اندوز ہونے کے لیے آزاد ہوں“
بین اینڈ جیری نے، جس کی بنیاد آپس میں دو بہترین دوستوں بین کوہن اور جیری گرین فیلڈ نے سنہ 1978ع میں امریکی ریاست ورمونٹ میں رکھی تھی، ایک ٹویٹر تھریڈ میں لکھا ”اب جب کہ ہماری پیرنٹ کمپنی نے یہ فیصلہ کر لیا ہے، ہم اس سے متفق نہیں ہیں“
انہوں نے مزید کہا ”ہماری کمپنی اسرائیل میں بین اینڈ جیری سے مزید فائدہ نہیں اٹھائے گی“
یونی لیور نے سنہ 2000ع میں جب سے آئس کریم بنانے والی کمپنی خریدی ہے، اس وقت سے کمپنی میں ایک آزاد بورڈ قائم رہا ہے، جو اس کے سماجی اقدار اور مشن کے بارے میں فیصلوں کا حق رکھتا ہے
اس کمپنی کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے جب بھی کبھی ، کسی مسئلہ کو اہم تصور کیا ہے اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے
اسرائیلی تاجر ایوی زنگر اسرائیل میں بین اینڈ جیری کے کاروباری مفادات خرید رہے ہیں
تاہم، یونی لیور کے پاس اب بھی مالی اور آپریشنل فیصلوں کا کنٹرول تھا اور اس نے کہا کہ اسی لیے بین اینڈ جیری کے بورڈ کی جانب سے اسرائیلی بستیوں میں فروخت روکنے کے فیصلے کے بعد اس نے مداخلت کی تھی
سنہ 1967ع کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کے قبضے کے بعد سے تعمیر کی گئی تقریباً ایک سو چالیس بستیوں میں چھ لاکھ سے زیادہ یہودی رہتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی اکثریت بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھتی ہے، لیکن اسرائیل اپنی ہٹ دھری پر قائم ہے
یونی لیور نے کہا ہے کہ نیا انتظام اسرائیل میں بین اینڈ جیری کی کاروباری سرگرمیوں کا جائزہ لینے اور اسرائیلی حکومت کے ساتھ بات چیت سمیت وسیع مشاورت کے بعد کیا گیا ہے
جب گزشتہ جولائی میں یہ تنازع شروع ہوا تو اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا تھا کہ دستبرداری ایک برا کاروباری فیصلہ اور اخلاقی طور پر غلط ہو گا
یونی لیور کئی اسرائیلی فوڈ برانڈز کی مالک ہے، اور مسٹر بینیٹ نے ایک فون کال کے ذریعے اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ایلن جوپ کو ”سنگین نتائج“ بھگتنے کی دھمکی دی تھی
بین اینڈ جیری آئس کریم اسرائیلی صارفین میں بہت پسند کی جاتی ہے اور کمپنی یہودی تہواروں پر خاص فلیورز بھی متعارف کراتی ہے
اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بائیکاٹ ڈیویسٹمنٹ اینڈ سینکشنز (بی ڈی ایس) تحریک کے لیے کام کرنے والے فلسطینی کارکنوں نے اس وقت بین اینڈ جیری کی تعریف کی اور کہا کہ ”اسرائیل کے قبضے اور فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرنے کے جرم میں کمپنی کی شراکت کو ختم کرنے کی طرف ایک فیصلہ کن قدم ہے“
یہ تحریک اسرائیل پر معاشی دباؤ بڑھا کر اس کو اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے
تاہم، اسرائیل کی حکومت اور یونی لیور نے بات چیت جاری رکھی اور وزیر خارجہ یار لیپڈ نے گزشتہ چند دنوں میں مسٹر جوپ اور مسٹر زنگر دونوں سے بات کی
ایک بیان میں یار لپیڈ نے یونی لیور کے اس تنازع کو حل کرنے کے عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ”یہودیوں کے خلاف نفرت ہمیں شکست نہیں دے سکتی یہاں تک کے جب بات آئس کریم کی فروخت پر آ جائے“
انہوں نے کہا ”ہم بی ڈی ایس کی مہم کی ہر سطح پر مخالفت کریں گے چاہے یہ چوراہوں پر ہو، معاشی میدان میں ہو یا اخلاقی سطح پر ہو“
ان کا مزید کہنا تھا ”اسرائیل میں بین اینڈ جیری کی فیکٹری اسرائیلی معاشرے کے تنوع کی آئینہ دار ہے۔ آج کی فتح ان تمام لوگوں کی فتح ہے جو جانتے ہیں کہ بی ڈی ایس کے خلاف جدوجہد، اول اور آخر شراکت داری اور مکالمے کی جدوجہد، اور امتیازی سلوک کے خلاف ہے“
اسرائیل پر معاشی دباؤ بڑھا کر اس کو اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوششوں میں مصروف بی ڈی ایس کے خلاف کم از کم پینتیس امریکی ریاستوں میں قانون سازی ہو چکی ہے۔ جبکہ ایئر بی اینڈ بی ان دیگر کمپنیوں میں شامل ہے، جنہوں نے امریکہ میں مقدمات کا سامنا کرنے کے بعد اسرائیلی بستیوں پر اپنی پالیسیوں کو تبدیل کر دیا ہے
اسی تناظر میں یروشلم میں قائم کوہلیٹ پالیسی فورم میں بین الاقوامی قانون کے ڈائریکٹر پروفیسر یوجین کونٹرووچ کا کہنا ہے ”یونی لیور کا فیصلہ ’امریکہ میں بائیکاٹ مخالف قوانین کی فتح‘ ہے۔ اس الٹ پھیر کی ’شرمندگی اور اخراجات‘ کے بعد، یہ امید کی جاتی ہے کہ کمپنیاں سمجھ جائیں گی کہ اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا محض بددیانتی ہے“
دوسری جانب امریکہ میں قائم انسانی حقوق کے گروپ ہیومن رائٹس واچ کے عمر شاکر کہتے ہیں ”یونی لیور بین اینڈ جیری کے بورڈ کے اصولی فیصلے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا تھا“ لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ یہ کامیاب نہیں ہوگا
واضح رہے کہ یونی لیور نے پچھلی دہائی کے دوران اسرائیل میں چوبیس کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے اور چار مینوفیکچرنگ پلانٹس میں دو ہزار سے زیادہ افراد کی متنوع افرادی قوت کو ملازمت فراہم کی ہے
کمپنی کا کہنا ہے ”یونی لیور مکمل طور پر مسترد کرتا ہے اور کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک یا عدم رواداری کو واضح طور پر رد کرتا ہے۔ یہود دشمنی کی کسی بھی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم نے کبھی بھی بائیکاٹ ڈیویسٹمنٹ سینکشنز (بی ڈی ایس) تحریک کی حمایت کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس پوزیشن کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ ہے“