ان دنوں ملکی سیاست میں ایک مرتبہ پھر مبینہ وائر ٹیپنگ، فون ٹیپنگ اور آڈیو لیکس کا غلغلہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سینیئر رہنما شیریں مزاری کا کہنا ہے ”انٹیلیجنس ایجنسیاں غیر قانونی طور پر فون ٹیپنگ کرتی ہیں اور عمران خان کی سکیور لائن ٹیپ کرنے پر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے“
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اس سے قبل اپنے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کو وزیر اعظم کی تمام گفتگو کا علم ہوتا ہے
اس ساری بحث میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جدید دور میں فون ٹیپنگ کس طرح کی جاتی ہے اور کیا اسے پکڑنے کا کوئی طریقہ موجود ہے
فون ٹیپ کرنے کا طریقہ
فون ٹیپنگ سے مراد کسی کے فون سے ہونے والی گفتگو کو بغیر اجازت سُننا اور ریکارڈ کرنا اور اس سے معلومات حاصل کرنا ہے
فون ٹیپنگ کے حوالے سے انفارمیشن سکیورٹی اور ٹیلی کام کے شعبے سے منسلک حسن عماد کہتے ہیں ”قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ایسا نظام موجود ہوتا ہے کہ وہ شک کی بنیاد پر کسی بھی کال کو ٹیپ کر سکتے ہیں جبکہ اس طرح کی ٹیکنالوجی عام لوگوں کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے“
انہوں نے بتایا ”لینڈ لائن جیسے پی ٹی سی ایل کی ایکسچینج میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے آلات لگا دیتے ہیں اور ان کے پاس مکمل رسائی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی کال کو رکارڈ یا ٹیپ کر سکیں جبکہ موبائل نیٹ ورک میں بھی ایکسچینج ہوتے ہیں، ان میں بھی وہ اپنے آلات لگا کر کال کو سُن سکتے ہیں“
اسے سمجھانے کے لیے انہوں نے کہا ”فون کال کے دوران نیٹ ورک کی جانب سے گیٹ وے تک ڈیٹا پہنچایا جاتا ہے لیکن درمیان میں ایجنسیاں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کسی کو مانیٹر کر سکتی ہیں“
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسے ٹیپ کیا جا رہا ہے اور کس کی کال ریکارڈ ہو رہی ہے، اس کا علم نیٹ ورک پرووائیڈرز کے پاس نہیں ہوتا
حسن عماد کے مطابق، ”کسی کے لینڈ لائن نیٹ ورک کو ٹیپ کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اس کی تار کے ساتھ ٹیمپرنگ کی جا سکتی ہے۔ پی ٹی سی ایل یا کوئی اور لینڈ لائن کی صورت میں کیبل جس ڈسٹریبیوشن بوکس سے گزر کر گھر آ رہی ہو، وہاں کوئی بھی شخص اپنا ٹیلی فون لگا کر آپ کے نمبر سے کال ملا سکتا ہے اور سُن سکتا ہے“
انہوں نے کہا کہ اگر فون کی کیبل پر کوئی کنڈے ڈال دے یا بارش کی وجہ سے لائن جوائن ہوجائے تو ایک کال کے دوران دوسری کالز کی بھی آوازیں آ رہی ہوتی ہیں
سائبر سکیورٹی کے ماہر اعتزاز محسن کا کہنا ہے ”ہر ٹیلی کام سینٹر میں کچھ ڈیوائسز (آلات) لگی ہوتی ہیں جو خاص طور پر ’لافل انٹرسیشپن‘ کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ اگر کسی کی کال ٹیپ کرنی ہو تو ان ڈیوائسز میں وہ نمبر درج کر دیے جاتے ہیں اور جیسے ہی وہ شخص کال ملاتا ہے تو اس کی کال کی ریکارڈنگ سنی جا سکتی ہے“
انہوں نے بتایا کہ کریمینل انٹرسیپشن میں کوئی شخص آپ کے گھر یا دفتر کے باہر جا کر اپنی ڈیوائسز کے ذریعے کال کو غیر محفوظ چینل پر کنورٹ کر سکتا ہے، جیسے اسے تھری جی کو کم محفوظ نیٹ ورک ٹو جی پر منتقل کر دیا جاتا ہے، جس میں انکرپشن اتنی مضبوط نہیں ہوتی
”جیسے ہی آپ کال ملاتے ہیں تو آپ کا موبائل سب سے قریب کسی ٹاور کو تلاش کرتا ہے اور اس سے کنیکٹ ہو جاتا ہے۔ اگر گاڑی میں ایسی ڈیوائس لگی ہو جو بطور ٹاور کام کرے تو موبائل کسی ٹاور کے بجائے اس ڈیوائس سے کنیکٹ ہو جاتا ہے“
اعتزاز کا کہنا ہے کہ اگر کسی کا فون ہیک ہو جائے تو سپائیویئر کے ذریعے بھی کال سُنی جا سکتی ہے
جبکہ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کے مطابق فون ٹیپنگ کے الزامات بہت سوچ سمجھ کر لگانے چاہییں کیونکہ یہ سیکرٹ ایکٹ اور آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کے علاوہ اخلاقی اعتبار سے بھی غلط ہے
انہوں نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے دعوؤں میں دراصل واٹس ایپ پر کالز اور وائس میسجنگ کی بات ہو رہی ہے، جسے رکارڈ کرنا اتنا مشکل نہیں خاص طور پر جب اس گفتگو میں شریک دوسرا شخص اپنے فون سے اسے ریکارڈ کر لے، جو کہ عام ہوتا ہے“
ان کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ پر ریکارڈنگ کے لیے کئی ایپس بھی موجود ہیں، جن کے ذریعے ایسا ممکن ہے
کیسے معلوم ہو کہ فون ٹیپ ہو رہا ہے؟
پاکستان کے سویلین انٹیلیجنس کے ادارے اینٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے سابق سربراہ مسعود شریف خٹک پاکستان میں فون ٹیپ کرنے کے سوال اور ماضی کے واقعات کے بارے میں بتاتے ہیں ”ملک میں کام کرنے والی مختلف ایجنسیز ہیں جن کے اپنے اپنے اہداف ہوتے ہیں اور وہ اُن کی اپنے اپنے حساب سے نگرانی کرتے ہیں“
ان کا کہنا تھا ”قانونی طور پر ’سول ایکسچینجز‘ کو مانیٹر کرنے کا اختیار صرف آئی بی کے پاس ہے اور کسی اور ادارے کے پاس ایسا کرنے کا حق نہیں ہے اور یہ بھی صرف وزیر اعظم کی اجازت کے ساتھ ہی ممکن ہوتا ہے اور یہی قانون ہے“
ان کے مطابق بعض اوقات چیزیں بہت تیزی سے ہوتی ہیں اور کبھی کبھی صورتحال ایسے بھی ہو جاتی ہے کہ روزمرہ کے واقعات پر آئی بی کا ڈائریکٹر جنرل خود فیصلہ کر لیتا ہے تاہم اس کی توثیق وزیراعظم ہی کرتا ہے
اس حوالے سے انفارمیشن سکیورٹی ماہر حسن عماد کہتے ہیں کہ اگر یہ دیکھنا ہو کہ آپ کی کال ٹیپ ہو رہی ہے یا نہیں، تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں کسی طرح کا بگاڑ یا مخصوص شور تو نہیں آ رہا، یا کیا آپ کو اپنی ہی آواز دوبارہ تو نہیں سُنائی نہیں دے رہی
انکوں نے بتایا کہ ٹیلی کام کے شعبے میں بارہا فون ٹیپنگ کی شکایات موصول ہوتی ہیں جس پر کہا جاتا ہے کہ آپ سب سے پہلے اپنی لائن ’ویری فائی‘ کریں یعنی یہ چیک کریں کہ آپ کی تار کسی جگہ سے متاثر تو نہیں ہے۔ اس صورت میں ٹیلی کام حکام اسے ٹھیک کرتے ہیں اور تاروں کو گھر کے اندر اور باہر سکیور کرتے ہیں
وہ کہتے ہیں کہ ٹیلی کام سروس پرووائیڈرز کے پاس ایسا کوئی مخصوص طریقہ نہیں کہ وہ دیکھ سکیں کہ آیا کسی کا فون ٹیپ ہو رہا ہے، تاہم اس کا حل یہ ہے کہ ’آپ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کروا سکتے ہیں کہ مجھے کال کے دوران مشکوک شور سنائی دیتا ہے اور مجھے شک ہے کہ میری کال ٹیپ ہو رہی ہے۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ آیا میری کال انکرپٹڈ اور سکیور ہے یا نہیں۔۔۔ ایف آئی اے کی جانب سے اس کا جواب دیا جاتا ہے‘
انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ صارفین اپنے موبائل فون میں کسی بھی طرح کی غیر ضروری ایپ نہ رکھیں جس سے فون ٹیپنگ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ’کسی بھی ایپلیکیشن کو اتنی ہی پرمشنز (اجازت) دیں جتنی اس کے لیے ضروری ہیں۔ جیسے اگر کیلکولیٹر کی ایپ آپ سے کیمرے اور مائیکروفون کی اجازت مانگے تو اس کا یہ کام نہیں ہے۔‘
اعتزاز کہتے ہیں کہ لافل انٹرسیشپن سے بچنا مشکل ہے لیکن سمارٹ فونز سے کی جانے والی فون ٹیپنگ سے بچنے کے لیے صارفین محفوظ میسجنگ ایپس جیسے سگنل استعمال کر سکتے ہیں
انہوں نے کہا ”اگر فون استعمال کرنے کے دوران آپ کا نیٹ ورک اچانک تھری جی سے ٹو جی پر منتقل ہو جائے تو یہ بھی ایک ریڈ فلیگ ہے“
حسن کا کہنا ہے کہ ’واٹس ایپ کی کال انکرپٹڈ ہوتی ہے یعنی یہ ایک ایلگورتھم میں سے گزر کے جاتی ہے اور اسے درمیان میں کوئی نہیں سُن سکتا لیکن لینڈ لائن کی کال میں انکرپشن نہیں ہوتی۔‘
وہ صارفین کو مشکوک ایپس کے علاوہ وی پی اینز (ورچوئل پرائیوریٹ نیٹ ورک) سے بھی دور رہنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ ’اگر آپ وی پی این کنیکٹ کرتے ہیں تو آپ کسی سرور کے ساتھ کنیکٹ ہو جاتے ہیں اور وہاں سائبر حملوں کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔‘
حسن عماد کہتے ہیں ”ایپس صرف وہ استعمال کریں جو پلے اسٹور یا ایپل اسٹور سے تصدیق شدہ ہیں۔ پبلک وائی فائی یا ہاٹ اسپاٹ پر کبھی انٹرنیٹ استعمال نہ کریں اور اس کے ذریعے کالز نہ کریں۔ کافی شاپ، میٹرو اور ائیرپورٹس کے پبلک ہاٹ اسپاٹ پر سائبر حملے ہو سکتے ہیں“