کرپٹو کرنسی نہ خریدنے پر قتل ہونے والے پروفیسر کے قاتلوں تک پولیس کیسے پہنچی؟

ویب ڈیسک

رواں سال 9 مئی کی شب لاہور میں فیروزپور روڈ پر روہی نالے کے کنارے ایک لاش دیکھ کر راہگیر اکھٹے ہو گئے اور پولیس کو اطلاع کر دی۔ پولیس نے پہنچ کر لاش کو تحویل میں لیا تاہم اسے پہچاننا تقریباً ناممکن تھا

لاش کے کپڑوں کے اندر سے بھی کسی قسم کی کوئی شناختی دستاویز نہ ملنے پر جب اردگرد تلاشی شروع کی گئی تو پولیس کو پتہ چلا کہ ایم جی کمپنی کی ایک مہنگی گاڑی اس لاش سے کوئی آدھا کلومیٹر دور کھڑی تھی

پولیس نے شک کی بنیاد پر گاڑی کو بھی تحویل میں لے لیا۔ جلد ہی گاڑی کی ملکیت کے ریکارڈ سے اس کے مالک کی شناخت ایک نجی یونیورسٹی کے پروفیسر سلمان شوکت کے نام سے ہوئی

ایف آئی آر درج کرنے کے بعد اس اندھے قتل کا سراغ لگانے کے لیے تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی گئیں

لاہور پولیس کے انویسٹیگیشن ونگ کے سربراہ کامران عادل کے مطابق ”یہ ایک مشکل کیس تھا۔ جس جگہ پر لاش کو پھینکا گیا تھا وہاں اندھیرا تھا۔ چونکہ روہی نالے کے اردگرد زیادہ تر فیکٹریاں ہیں، اس لیے ہمیں امید تھی کہ پرائیویٹ عمارتوں پر لگے سرویلینس کیمروں کی مدد سے کوئی سراغ مل سکتا ہے“

جب دو درجن کیمروں کی چوبیس گھنٹے کی فوٹیجز کو کھنگالا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ 8 مئی کو رات گئے دو گاڑیاں اس علاقے میں داخل ہوئیں۔ ایک گاڑی میں سے لاش نکال کر اسے آدھا کلومیٹر دور پارک کر دیا گیا

مقدمے کے تفتیشی افسر عدنان بتاتے ہیں ”دوسری گاڑی کو ٹریس کرنا ایک اور امتحان تھا۔ ہمیں سیف سٹی کے کیمروں کی مدد لینا پڑی لیکن مشکل یہ تھی کہ چار بڑی سڑکیں روہی نالے کے سنگم پر آتی تھیں۔ پھر جلد ہی ہمیں اس گاڑی کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ قصور سے لاہور میں ایک روز قبل داخل ہوئی تھی۔ بعد ازاں یہ کرائے کی کار ثابت ہوئی، تاہم اس کو کرائے پر لینے والے تک ہم پہنچ گئے“

پولیس کو ملزمان تک پہنچنے میں تقریباً ایک ماہ کا عرصہ لگا۔ کرائے پر گاڑی لینے والا ذیشان اصل ملزم نہیں تھا۔ تو پھر اصل ملزم کون تھا؟

عدالت میں جمع کروائی گئی اب تک تفتیشی رپورٹ کے مطابق اس قتل کا اصل ملزم فراز نامی ایک اے سی سی اے کا طالب علم ہے

فراز لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن کا رہائشی ہے۔ وہ اور اس کی بیوی دونوں کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتے ہیں

فراز نے پروفیسر سلمان شوکت سے فیسبک پر دوستی کی اور ان سے دو دفعہ لاہور کے مختلف چائے خانوں میں ملاقات بھی کی

اسی دوران فراز نے پروفیسر کو بتایا کہ کیسے وہ کرپٹو کرنسی کی خریداری کرتا ہے اور یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ اور اس کے پاس ایسے طریقے ہیں، جن کی مدد سے محض کریڈٹ کارڈز کو استعمال کر کے اور بغیر کوئی انویسٹمنٹ کرکے راتوں رات امیر ہوا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ وہ اس کام کا ماہر ہے

پولیس نے جب ذیشان کو گرفتار کیا تو سب ملزم روپوش ہو گئے۔ جس کی وجہ سے فراز تک پہنچے میں پولیس کو بڑا وقت لگا

ڈی آئی جی کامران عادل بتاتے ہیں ”ملزمان نے جو دو گاڑیاں استعمال کیں۔ دونوں میں ٹریکر لگے ہوئے تھے۔ ٹریکر کمپنیوں سے سارا ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ ملزمان کی موبائل لوکیشنز بھی حاصل کی گئیں۔ فراز کو اس ڈیٹا کی مدد سے بہاولنگر سے حراست میں لیا گیا“

پولیس کو دیے گئے اپنے اقبالی بیان میں فراز نے بتایا کہ پروفیسر کے پاس چھ سے سات کریڈٹ کارڈز تھے۔ جن کی مالیت پچاس لاکھ سے زائد ہے

مقدمے کے تفتیشی عدنان مسعود نے بتایا کہ یہ معلومات ملنے پر فراز نے اپنے گینگ کو اکٹھا کیا۔ اس گینگ کے باقی افراد میں ذیشان، حسن غفور اور احمد اقبال تھے

پولیس کا ماننا ہے کہ ملزمان کا تعلق بین الاقوامی ہیکروں کے ایک گروپ سے بھی ہے۔ وہ گروپ کریڈٹ کارڈز کے ذریعے کرپٹو کرنسی کی عالمی بلیک مارکیٹ میں خریدوفروخت کرتا ہے

جب تیسری دفعہ پروفیسر کو بلایا گیا تو اس وقت چاروں ملزمان اکٹھے تھے۔ انہوں نے پروفیسر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ فوری طور پر اپنے کریڈٹ کارڈز سے کرپٹو کرنسی خریدے تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ جس سے معاملات بگڑ گئے

عدنان مسعود کے مطابق ”شاید پروفیسر سلمان شوکت ان کی باتوں میں آ کر اپنے کارڈز ان کے حوالے کر دیتے لیکن اصل بات یہ تھی کہ پروفیسر کے کارڈز میں رقم نہیں تھی اور وہ اپنا بھرم رکھنا چاہتے تھے۔۔ جبکہ ملزمان نے سمجھا کہ شاید پروفیسر کو شک ہو گیا ہے۔ اسی دوران یہ لوگ وہاں سے نکلے اور پروفیسر کی گاڑی میں ہی ان کو ہتھوڑوں کے وار کر کے قتل کر دیا“

قتل کرنے کے بعد ملزمان نے فوری پروفیسر کی تلاشی لی اور کریڈٹ کارڈز نکالے۔ جب انہوں نے یہ کارڈز استعمال کرنے کی کوشش کی تو یہ دیکھ کر ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ کارڈز تو خالی تھے

ایک کارڈ سے صرف ڈیڑھ ہزار اور ایک سے ساڑھے تین ہزار روپے نکلے، جبکہ باقی کارڈز یا تو ایکسپائر تھے یا اوور لمٹ

قتل کرنے کے بعد ملزمان نے تیزی سے پروفیسر کی لاش کو ٹھکانے لگایا اور روپوش ہو گئے

اس گینگ کا چوتھا رکن احمد اقبال اب بھی مفرور ہے۔ جبکہ پولیس اس ہیکر گینگ کا بھی کھوج لگا رہی ہے، جس سے یہ لوگ رابطے میں تھے

مقدمے کے تفتیشی کے مطابق تینوں ملزمان کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہوچکا ہے اور وہ تینوں جیل میں ہیں جبکہ جس ہتھوڑے کے وار سے پروفیسر کو قتل کیا گیا وہ بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے

رواں ماہ 6 جولائی کو عدالت نے تینوں ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے جبکہ پولیس مقدمے کا چالان مکمل کرنے اور گینگ کے چوتھے فرد کو ڈھونڈنے کا کام کر رہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close