ہماری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک طلسم ہوشربا ہے اور طلسم ہوشربا پڑھنے والوں میں سے کون ہو گا جس کا پسندیدہ سحر وہ نہیں ہو گا جس میں جادوگروں کا خداوند کہلانے والے سامری و جمشید کی اولاد بھی گرفتارِ بلا نہیں ہوتی۔ ارے وہی ایک باغ جس میں دشمن بھی عاشق بن کر داخل ہوتے ہیں اور پھر جب باغ کی پریاں ان کے ہاتھوں میں گجرے ڈال دیتی ہیں تو اپنے ہی لشکر کا سر کاٹ کر لانے کو وہ آمادہ ہو جاتے ہیں۔ حسن و بہار کی ملکہ بہار جادو کے سحر سے بھلا کون بچ پایا ہے، نہ تو طلسم ہوشربا کے ساحر اور نہ ہی طلسم ہوشربا کے پڑھنے والے۔ وہ ایک گلدستہ اچھالتی ہے اور جانی دشمن بھی ہوش و حواس سے بیگانے ہو کر اس کی خاطر سر کٹانے کو تیار ہو جاتے ہیں
آج کل سحر زدہ کر کے ہوش و حواس سے بیگانہ کر دینے والے اس جادوئی گلدستے کو پروپیگنڈا کہتے ہیں جو نصاب کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے بھی اور کتابوں کے ذریعے بھی۔ یہ آمروں کا پسندیدہ سحر ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ عوام کو راضی خوشی اپنی جان دینے پر آمادہ کر لیتے ہیں
ہمارا لڑکپن ایسے ہی ایک آمر کے دور میں گزرا۔ پڑھنا سیکھتے ہی روزنامہ نوائے وقت پڑھنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ 1979 میں خانہ کعبہ پر حملہ، انقلاب ایران اور سوویت یونین کا حملہ ہماری یادوں میں محفوظ ہے۔ خانہ کعبہ پر حملے کے بعد اسلام آباد کی امریکی ایمبیسی جلانے پر ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ امریکی فرعونوں کو فلسطینیوں کے خلاف اپنی پراکسی اسرائیل کے ذریعے جنگ کرنے کی سزا ملنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ انقلاب ایران سے ہمارے اس یقین کو تقویت ملی کہ مسلم نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہو گیا ہے اور اب کفار کا خاتمہ زیادہ دور کی بات نہیں ہے
سوویت یونین کے افغانستان میں فوجیں داخل ہوتے ہی ہمیں پتہ چلا کہ دراصل وہ پاکستان پر قبضہ کرنے آئی ہیں مگر ہمارے عظیم لیڈر جنرل محمد ضیا الحق اس سپر پاور کے آگے سد مارب بن کر کھڑے ہو چکے ہیں اور اسے ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی آمریت ختم کر کے اسلام کا پرچم بلند کرنے پر ہم ان سے پہلے ہی متاثر تھے اور پی ٹی وی پر پیپلز پارٹی کے خلاف شائع ہونے والے وائٹ پیپر اور دلائی کیمپ وغیرہ کا حال دیکھ کر بھٹو کی فسطائی حکومت سے نجات پانے پر خدا کا شکر ادا کیا کرتے تھے
پھر افغان جہاد میں مجاہدین کی زبردست کامیابیوں کو دیکھ کر ہمارا سر فخر سے بلند ہونے لگا کہ کفار کی تمام دنیا کے خلاف ہمارا ہیرو جنرل ضیا کس طرح سیسہ پلائی دیوار بنا کھڑا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس نے سوویت یونین جیسی سپر پاور کو لاچار کر دیا ہے بلکہ اس نے یہ کارنامہ ایک دوسری سپر پاور کو بے وقوف بنا کر اس کے خرچے پر سرانجام دیا ہے۔ واہ، ساری دنیا کو یہ عظیم پاکستانی حکمران تن تنہا بے وقوف بنا رہا تھا۔ واقعی ہم پاکستانیوں سے زیادہ دانشمند اور کون ہے؟
محمد خان جونیجو نے جب جنرل ضیا کے عظیم منصوبوں کو خاک میں ملاتے ہوئے جنیوا معاہدہ کر لیا تو ہمیں بہت غصہ آیا کہ کیسا عقل سے تہی وزیراعظم ہمارا مقدر بنا ہے جو کفار کے ہاتھوں میں اس طرح کھیل گیا ہے اور ہمارے عظیم لیڈر جنرل ضیا کی بہترین فتح کو ناکامی میں تبدیل کر رہا ہے۔ جونیجو حکومت برطرف ہوئی اور میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ن بنا ڈالی تو ہمیں خوشی ہوئی کہ شکر ہے ہماری پارلیمان کو کچھ عقل ہے اور وہ ہمارے عظیم ہیرو جنرل ضیا الحق کے ساتھ کھڑی ہے
جنرل ضیا الحق کو شہید کر دیا گیا۔ یہ خبر ملتے ہی ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے۔ واللہ کون بھول سکتا ہے اظہر لودھی صاحب کی وہ جذباتی کمنٹری جو ہم سب محب وطن اور دانشمند پاکستانیوں کے دل کی آواز تھی۔ ہمیں یہ احساس بھی تھا کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور لیفٹ کی پارٹیوں کے غدار جشن منا رہے ہیں مگر جب غلام اسحاق خان جیسے محب وطن شخص نے اقتدار سنبھالا تو ہمارے دل کو تسلی ہوئی کہ پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے
1988 کے الیکشن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو جنرل ضیا الحق کے جانشین جناب میاں محمد نواز شریف نے اس ”سیکیورٹی رسک حکومت“ کے خلاف ایسی زبردست مزاحمت کی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے پیپلز پارٹی کا پاور بیس پنجاب ایک نو گو ایریا بن کر رہ گیا
پھر ایک چار سال کا وقفہ آیا اور ہم وطن سے دور رہے۔ نوائے وقت پڑھنے، پی ٹی وی دیکھنے سے محروم ہوئے اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنا جلنا ہونے لگا۔ بھارتی دوست بھی بنے جو ہندو بھی تھے اور مسلم بھی اور سکھ بھی۔ گورے ملے جو یورپ کے کونے کونے سے آئے ہوئے تھے۔ چار برس میں ان میں سے کسی نے ہمیں زہر نہیں دیا یا کوئی دوسری سازش نہیں کی۔ وہ ہم جیسے ہی انسان نکلے۔ پڑھائی کا اثر بھی ہوا اور رنگ رنگ کی گوری کالی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ ملکہ بہار جادو کا سحر کا گجرا ٹوٹ کر ہماری کلائی پر ڈھیلا پڑنے اور ہم تھوڑا تھوڑا خود سے سوچنے سمجھنے لگے
مشرف کے مارشل لا کے بعد کچھ زیادہ ہی سوچنے سمجھنے لگے۔ دیکھا کہ کیسے اس نے ملک میں خانہ جنگی شروع کروا دی ہے۔ پہلی مرتبہ علم ہوا کہ سیاستدانوں کی تربیت لوگوں سے ایک ایسی ڈیل کرنے کی ہوتی ہے جس میں سب فریق اپنا فائدہ دیکھیں اور فوجی کی تربیت یہ ہوتی ہے کہ دشمن کو پھڑکا دو۔ اسی لئے کسی سیانے مدبر نے کہا تھا کہ جنگ جیسا سنجیدہ معاملہ جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ نائن الیون ہوا، اس کے اثرات بھی ہم پر پڑے۔ مجاہدین اب ہماری پاکستانی حکومت اور فوج کے خلاف اسی دلیل کو استعمال کر کے ”جہاد“ کرنے لگے جو جنرل ضیا الحق نے انہیں سوشلسٹ افغان حکومت سے لڑنے کے لئے فراہم کی تھی۔ ہمارے ارد گرد ہمارے اپنے ہم وطن مرنے لگے تو ہمیں لگا کہ ”افغان جہاد“ کی پالیسی میں شاہد کہیں کچھ غلطی تھی
اس ذہنی تبدیلی میں آخری ٹچ بے نظیر بھٹو کی شہادت تھی۔ اس دن بھی ٹی وی پر جب خبر چلی تو ہمیں یقین تھا کہ یہ سیاستدانوں کا ڈرامہ ہے اور مکار پیپلز پارٹی صرف ووٹ لینے کے لئے یہ کر رہی ہے۔ ابھی کچھ دیر میں ہی ہسپتال سے سر پر سرخ رنگ کی دوائی سے آلودہ پٹی بندھوا کر بے نظیر بھٹو برآمد ہو گی اور مکر کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ افسوس۔ پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ ترین دن ہسپتال سے ایک تابوت برآمد ہوا اور ہماری کلائی میں پڑا سحر کا وہ گجرا ٹوٹ گیا جس نے ہمیں سچ دیکھنے سے اس وقت تک محروم رکھا ہوا تھا۔ ہم پروپیگنڈے کے سحرزدہ باغ سے ہمیشہ کے لئے نکل آئے اور دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن دیکھنے لگے
بالآخر ہمیں علم ہوا کہ ہم تو آج تک ظلمت کو ضیا کہتے رہے تھے
یہ صرف ہمارا نہیں بلکہ ایک پوری نسل کا المیہ ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ ابھی بھی باغِ سحر میں موجود ہیں اور ان کے ہاتھوں میں گجرے پڑے ہیں مگر ہمیں امید ہے کہ جلد یا بدیر وہ بھی یہ گجرے توڑ ڈالیں گے
جمہوری حکومت بنانے والا جو شخص بھی اقتدار میں آئے، خواہ وہ آصف علی زرداری ہو، میاں نواز شریف، عمران خان حتیٰ کہ سراج الحق بھی، ہم اس کی حمایت کریں گے۔ اس کی پالیسیوں کی مخالف تو کریں گے مگر اس کی حکومت کو جمہوری طریقے سے ہی رخصت کریں گے اور اسے ہٹانے کے لئے اختیار کیے گئے غیر جمہوری طریقوں کی مخالفت کریں گے۔ ہماری اور ہمارے ملک کی بہتری اسی میں ہے۔
بشکریہ: ہم سب