بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً نوے کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع مستونگ کی تحصیل کردگاپ میں چھ سو سال قدیم ایک قبرستان واقع ہے
ان قبروں پر کسی کا نام نہیں لکھا بلکہ ان کی شناخت کا طریقہ مختلف ہے
تیس ایکڑ پر محیط اس قبرستان کی منفرد بات یہاں کی قبروں پر نصب بلند و بالا پتھر ہیں
محققین کے مطابق یہ پتھر اس زمانے میں پہاڑوں سے توڑ کر اونٹوں کی مدد سے یہاں تک لائے جاتے تھے
اس قبرستان میں اس طرح کی ایک ہزار کے قریب قبریں موجود ہیں، جن میں سے کچھ قبروں پر نصب پتھر پچیس سے تیس فٹ اونچے ہیں، تاہم ہر قبر پر نصب پتھر ایک دوسرے سے مختلف ہے
پتھروں کی تراش خراش اس انداز سے کی گئی ہے کہ ان قبروں کی پہچان واضح ہو سکے
کسی کا قد بڑا ہوتا ہے تو کسی کے کتبے کا پتھر اس طرح تراشا گیا ہے کہ منفرد دکھائی دیتا ہے۔ ان میں سے بیشتر پتھرو 18 فٹ تک اونچے ہیں
مختلف قبروں پر اس وقت کے رسم الخط کے مطابق نقش و نگاری بھی کی گئی ہے، جو قدیم ثقافت کی عکاسی کرتی ہے
حیرت انگیز طور پر کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی موسمی اثرات نے قبروں پر لگے ان پتھروں کو متاثر نہیں کیا اور یہ آج بھی اپنی اصل حالت میں یہاں نصب ہیں
مقامی محقق سیف اللہ سرپرہ بتاتے ہیں کہ اس قسم کے پتھروں پر موسم اثر انداز نہیں ہو سکتا، اس طرح یہ پتھر آج تک اپنی اصل شکل میں موجود ہے
اس قبرستان میں دور تک سوائے لمبے پتھروں کے کچھ نہیں دکھتا۔ یہاں سے گزرنے والے کو گمان ہوتا ہے کہ یہ لمبے درخت ہیں، جنہیں کاٹا گیا ہے
لیکن قریب جا کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ درخت نہیں بلکہ قبر کے کتبے ہیں، جو پتھر سے تیار کیے گئے ہیں
علاقہ مکین سیف اللہ سیف سرپرہ کے مطابق یہ علاقہ تاریخ میں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کا سنگم رہا ہے
انہوں نے کہا ”کردگاپ کے اس قبرستان کی انفرادیت قبروں پر نصب یہی پتھر ہیں، جس سے ہمیں قدیم ثقافت اور تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔ ان پتھروں کو دور دراز علاقوں میں واقع پہاڑوں سے یہاں تک لانا اور ان کی خاص شکل اور ڈیزائن اس وقت کے لوگوں کی مہارت کو بھی ظاہر کرتا ہے“
سیف اللہ سرپرہ کہتے ہیں ”ایشیا کے اس قدیم اور منفرد قبرستان پر حکومت نے اب تک کوئی توجہ نہیں دی بلکہ یہاں کے مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس ورثے کی حفاظت پر مامور ہیں۔“
کردگاپ سے ہی تعلق رکھنے والے ایک محقق عبدالرزاق کا کہنا ہے ”تاریخ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہاں مدفون افراد کا قد آج کل کے افراد کے قد سے کئی گنا زیادہ تھا“
انہوں نے کہا ”اس کے علاوہ ایک اور منفرد بات یہ بھی ہے کہ جن اونٹوں پر ان پتھروں کو اس قبرستان تک یہاں لایا جاتا تھا، وہ اس کے بعد وزن اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور پھر انہیں اسی قبرستان میں ذبح کر دیا جاتا تھا“
عبدالرازق کا مزید کہنا تھا ”حکومت اگر اس ورثے کی حفاظت کرے تو ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اس قدیم تہذیب اور ثقافت سے روشناس ہوسکتی ہیں۔‘