کچھ لوگوں کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے، جو اپنی تمام عمر اس کام میں صرف کر کے سکون حاصل کرتے ہیں
ایسے ہی ایک شخص پروفیسر غلام حسین منگنہار ہیں، جو طالب علموں کو مفت انگریزی کلاسز دیتے ہیں
پروفیسر غلام حسین منگنہار اعلیٰ امتحانات کی مفت تیاری کے لیے نومبر سے مارچ تک سکھر پبلک اسکول میں مفت کوچنگ کرتے ہیں، جہاں درجنوں طلبہ انگلش کی تعلیم حاصل کرکے سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات دیتے ہیں
اب تک سینکڑوں افسران ملک بھر میں ان کی اس کاوش کی وجہ سے باعزت روزگار کما رہے ہیں
سکھر سے تعلق رکھنے والے پروفیسر غلام حسین منگنہار خود بھی ایک مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوئے اور محنت مزدوری کرکے تعلیم حاصل کی، یہی وجہ ہے کہ انہیں مہنگائی کے اس دور میں تعلیم کے حصول میں حائل مالی مشکلات کا احساس ہے
انہوں نے معاشیات، ادب اور فلسفے میں ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے جبکہ ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا ہے
1984ع میں اسکالرشپ پر انگریزی ادب اور زبان میں ماسٹرز کی ڈگری کینیڈا سے حاصل کی اور ڈھائی سال تک آسٹریلیا میں ادب پر تحقیقات بھی کیں
یونیورسٹی آف اوریگون سے بھی انہوں نے خصوصی انگلش کورسز کیے اور اپنی زندگی کے تیس سال مختلف کالجوں میں لیکچرار کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے
پروفیسر غلام حسین منگنہار کہتے ’میں ایک چپڑاسی کا بیٹا ہوں۔ محنت مزدوری کرکے تعلیم حاصل کی۔ پہلی ملازمت جب ریلوے میں ملی تو ایک سو بیس روپے تنخواہ تھی۔ غربت کوئی مسئلہ نہیں ہے صرف سچی لگن اور محنت کامیابی کی طرف لے جاتی ہے‘
اس وقت سکھر آئی بی اے میں انگریزی پروفیسر کے طور پر کام کرنے والے غلام حسین منگنہار عمر کے اس حصے میں بھی مختلف نجی فلاحی اداروں میں بلا معاوضہ لیکچر دیتے ہیں
پروفیسرغلام حسین کے حوالے سے ان کے ایک شاگرد زیبر احمد نے بتایا ’ان کی دی گئی تعلیم کے بدولت مجھ جیسے سینکڑوں نوجوان باعزت روزگار کما رہے ہیں‘
سفر زندگی کی مختصر کہانی
تعلقہ پنوعاقل کے گوٹھ ہنگورو میں پیدا ہونے پروفیسر غلام حسين کا تعلق ایک غريب گھرانے سے ہے
ان کے والد مرحوم اللہ ڈنو اپنے گھر کے ساتھ ایک چھوٹی سی دکان بھی چلاتے تھے۔ غلام حسین پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پڑھائی میں ہمیشہ اچھی کارکردگی دکھانے والے غلام حسین کے والد غربت کی وجہ سے اپنے بڑے فرزند کی پرائمری تعليم کے بعد سيکنڈری تعليم دلوانے کے لیے سخت مالی پریشانیوں کا شکار تھے
تبھی غلام حسین نے سکھر ريلوے اسٹیشن پر مزدوری کرنی اور چھولے فروخت کرنے شروع کیے۔ اس طرح انہوں نے مڈل کا امتحان منارا روڈ سکھر کے اسکول سے پاس کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ ھائی اسکول سکھر سے میٹرک کیا
غلام حسین نے نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے فرسٹ ايئر سے لے کر ایم اے اسلاميہ کالج سکھر سے ایوننگ شفٹ سے کیا۔ اس طرح وہ دن بھر محنت مزدوری کرتے اور شام کو تعلیم حاصل کرتے۔ کام کے اوقات میں بھی وہ نصابی کتب ساتھ رکھتے اور وقت ملتا تو مطالعے کرنے لگ جاتے
غلام حسين سنہ 1973 میں بطور ليکچرر اپوائنٹ ہوئے اور اس وقت کے وزير تعليم درمحمد اوستو کے ہاتھوں اپنی نوکری کا آرڈر وصول کیا۔ ان کی پہلی پوسٹنگ سٹی کالج ناظم آباد کراچی ايوننگ شفٹ میں ہوئی اور کچھ سالوں بعد ان کا تبادلہ گھوٹکی میں ہوا
پروفیسر غلام حسين جون 1981ع ۾ انگريزی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے کینیڈا اور پھر جون 1984 ۾ آسٹریلیا گئے اور 2003 میں پروفيسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے
ان کے سینکڑوں شاگرد ان کی انتھک محنت کی وجہ سے سی ایس ایس یا دیگر کامپیٹیٹو امتحان پاس کر کے اعلیٰ عہدوں پر پہنچ چکے ہیں
پروفیسر غلام حسين کے فرزند غلام مصطفیٰ بھی CSS آفيسر ہیں اور گریڈ 21 میں وفاق میں ڈائریکٹر جنرل پارڪو ہیں۔دوسرے فرزند عبد الصمد بھی ڪميشنڈ آفيسر ہیں اور سندھ سیکریٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری لا کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے تیسرے فرزند بورڈ آفس کراچی میں تعنيات تھے، جو کار میں ڈرائيونگ کرتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے ماہ رمضان میں انتقال کر گئے
میونسپلٹی سکھر کی طرف سے پروفیسر غلام حسينکی تعليمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے سکھر کے مختلف مقامات پر ان کے بڑے پورٹریٹ بھی آويزاں کیے گئے ہیں