اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے مارگلہ ہلز مقدمے کے فیصلے کے بارے میں کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے مقتدر حلقوں کے لیے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں جبکہ کچھ کے خیال میں طاقتور حلقوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا
سوشل میڈیا پر بھی اس فیصلے پر بحث کی جا رہی ہے، جبکہ ملک کے کئی بڑے اخبارات نے بھی اس خبر کو شہ سرخیوں کے ساتھ لگایا ہے
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کے روز اس مقدمے میں فیصلہ دیا تھا کہ فوج فلاحی کاموں کے علاوہ یا فلاحی مقاصد کے علاوہ کسی بھی طرح کی کمرشل سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہو سکتی، جب تک حکومت کی طرف سے ایسا کرنے کی واضح اجازت نہ ہو
اس مقدمے کا مختصر فیصلہ جنوری میں عدالت نے دیا تھا، جس میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ مونال ریستوران کو سیل کرلے اور مارگلہ گرین گولف کلب کو اپنے قبضے میں لے
عدالت نے اس آٹھ ہزار ایکڑ زمین پر فوج کے دعوے کو بھی مسترد کر دیا تھا، جو مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ہے
مارچ میں سپریم کورٹ نے مونال ریستوران کو سیل کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا
ایک سو آٹھ صفحات پر مشتمل اس تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا کہ آرمی کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی بھی تجارتی یا کمرشل سرگرمی میں ملوث ہو۔ ماسوائے ایسی صورت حال میں جہاں قوانین اور آئین ان کو اجازت دیتا ہے
عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ آرمی یا مسلح افواج کی کوئی بھی شاخ کسی ایسی زمین پر ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتی، جو وفاقی حکومت نے اس کے استعمال کے لیے مختص کی ہو
مذکورہ فیصلے کے بارے میں کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے طاقتور حلقوں کے تجارتی پروجیکٹس کے حوالے سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے ”بظاہر اس فیصلے کی تشریح یہ لگتی ہے کہ مسلح افواج کاروباری اور کمرشل معاملات میں ملوث نہیں ہو سکیں گی۔ اس سے ممکنہ طور پرہاؤسنگ پروجیکٹس اور دوسرے تجارتی پروجیکٹ بھی متاثر ہو سکتے ہیں‘‘
لطیف آفریدی کہتے ہیں ”اگر فوج شہداء اور اپنے سپاہیوں اور افسران کے لیے زمین لینا چاہے تو وہ لے سکتی ہے لیکن ان کو کمرشل بنیادوں پر بیچنا مشکل ہو جائے گا“
دوسری جانب کچھ ناقدین کے خیال میں اس فیصلے سے فوج کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اس فیصلے کو غلط طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے کچھ عناصر اس سے فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کریں گے
دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی کا کہنا ہے ”یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں معطل ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس فیصلے کو معطل ہونا چاہیے اور عدالتوں کو دفاعی اداروں کے حوالے سے فیصلے کرتے وقت تمام عوامل کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ فوج ڈی ایچ اے اور دوسرے پروجیکٹس کے ذریعے سپاہیوں اور افسران کی بہت ساری ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ ملک کی معیشت اس قابل نہیں ہے کہ سرکاری خزانے سے ان کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔ ان پروجیکٹس میں فوج حکومت سے کچھ نہیں لیتی بلکہ اپنے طور پر ایسے پروجیکٹس چلا کر وہ اپنے سپاہیوں، شہدا اور ریٹائرڈ افسران کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے‘‘
ان کا کہنا تھا ”اس فیصلے سے دفاعی ادارے کو فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم کچھ عناصر اس فیصلے کی آڑ میں فوج پر تنقید کریں گے اور دفاعی ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کریں گے۔ کچھ عناصر فوج کی مراعات اور ان کی سہولیات کو ہدف تنقید بناتے ہیں“
جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی کے بقول ”اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی پینشن اور دوسرے اداروں کی پینشن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کو دی جانے والی سہولیات بھی بہت زیادہ ہیں، جس پر کوئی بات نہیں کرتا‘‘