فلاحی اداروں کی ایمبولینس سروس کا ایک تاریک پہلو۔۔۔

ویب ڈیسک

گزشتہ دنوں عامر لیاقت حسین کی اچانک موت نے لوگوں کو دم بخود کر دیا تھا۔ عامر لیاقت کی موت کی اطلاع کے بعد جب ان کے قریبی دوست احباب اور ٹی وی چینلز کے نمائندے ان کے گھر پہنچ رہے تھے، اس وقت پرائیوٹ ایمبولینسز کے ڈرائیورز میں تکرار جاری تھی کہ کون عامر لیاقت کی میت کو ہسپتال منتقل کرے گا

خیال رہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، اس سے پہلے کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان کی وفات پر بھی کچھ ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے تھے، جبکہ ایک مشہور سپر اسٹور میں آتشزدگی کے بعد بھی ایمبولینسز کے ڈرائیور کو ایک دوسرے سے الجھتے دیکھا گیا

اب یہ عام تاثر بن چکا ہے کہ جس واقعے کی میڈیا کوریج ہونے کا امکان ہو یا جس سے لوگوں کی توجہ حاصل کی جا سکے، پرائیوٹ ایمبولینسز بروقت امدادی خدمات کے لیے پہنچ جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک عام آدمی کے لیے صوتحال اس کے برعکس ہوتی ہے

کسی مریض کو ہسپتال لے جانا ہو یا کوئی اور ہنگامی صورتحال ہو، گھنٹوں کالز کرنے پر بھی کوئی ایمبولینس دستیاب نہیں ہوتی

ایسا ہی کچھ کراچی کی رہائشی فرزانہ تسلیم کے ساتھ بھی ہوا۔۔ انہیں اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے شوہر تسلیم چانڈیو کی طبعیت اچانک خراب ہوگئی

ان کے شوہر کو سینے میں تکلیف کی شکایت ہوئی تو انہوں نے ایمبولینس بلوانے کے لیے کال کی۔ تین بار فون کرنے کے باوجود پچیس منٹ تک ایمبولینس گھر نہیں پہنچی

جس کے بعد انہوں نے ہمسائے کے رکشے میں اپنے شوہر کو امراض قلب کے ہسپتال منتقل کیا

فرزانہ تسلیم بتاتی ہیں ”زندگی کے مشکل ترین وقت اور ہنگامی حالات میں ایمبولینس نہ ملنا میرے لیے مایوس کن اور انتہائی تکلیف دہ تھا۔۔ ایمبولینس کا انتظار کرنا میرے لیے آسان نہیں تھا۔ میرے دو چھوٹے بچے گھر میں تھے جو اپنے باپ کو تڑپتا دیکھ رہے تھے۔ ان کا رونا تھا اور میرے شوہر کی تکلیف تھی، میری سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟“

انہوں نے بتایا ”ہمارے گھر سے جناح ہسپتال اور امراض قلب کا ہسپتال قریب ہی ہے، جہاں درجنوں ایمبولینس ہر وقت موجود ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں ایک ایمبولینس نہیں ملی“

فرزانہ تسلیم سمجھتی ہیں کہ اگر ان کے پڑوسی بروقت ان کی مدد کو نہ پہنچتے اور ان کے شوہر کو رکشے میں ہسپتال نہ پہنچاتے تو ان کی زندگی بچانا مشکل ہوتا

کراچی میں اس وقت تین بڑی ایمبولینس سروسز کام کر رہی ہیں، جن کے پاس ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار ایمبولینس گاڑیاں ہیں جو اندرون شہر بیماروں، معذوروں اور میتوں کی منتقلی پر مامور ہیں

ملک کی معروف فلاحی تنظیم ایدھی کے سربراہ سعد ایدھی کے مطابق ان کے پاس ملک بھر میں اٹھارہ سو اور کراچی میں ساڑھے چار سو ایمبولینس ہیں، جو چوبیس گھنٹوں میں تقریباً سات ہزار سے زائد مریضوں کو ہسپتال منتقل کرتی ہیں

جبکہ چھیپا ویلفیئر کے ترجمان شاہد حسین بتاتے ہیں کہ ان کے پاس شہر میں چار سو سے زائد ایمبولینس موجود ہیں، جو تقریباً پانچ سے چھ ہزار افراد یومیہ ریسکیو کرتی ہیں

حال ہی میں سندھ حکومت کی جانب سے شروع کی جانے والی ریسکیو 1122 کو پچاس جدید ایمبولینس گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں، تاہم اس کے باوجود ضرورت کے وقت شہر کی ایک بڑی آبادی اس سہولت سے محروم رہتی ہے

سماجی کارکن جبران ناصر کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے حکومت اور محکمہ صحت کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں ایک لاکھ سے سوا لاکھ لوگوں کے لیے صرف ایک سرکاری ایمبولینس دستیاب ہے

ریسکیو 1122 سے منسلک ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے ’کراچی میں ایمبولینس سروس چلانا ایک مشکل کام ہے۔ چند روز قبل سپر اسٹور میں آتشزدگی کے واقعے میں ہلاک ہونے والے لڑکے کی لاش ایک فلاحی ادارے کے رضاکاروں نے اپنے قبضے میں لے لی اور روانہ ہونے لگے۔ سرکاری ادارہ ہونے کے ناطے میں نے ایمبولینس کو روکنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی اور اس انداز میں ایمبولینس نکالی کہ میں حادثے سے بال بال بچا‘

ڈاکٹر منصور کے بقول ایمبولینس میں جان بچانے والے آلات کے ساتھ تربیت یافتہ عملہ بھی ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے یہاں کام کرنے والی ایمبولینسس ٹیکسی سے زیادہ کچھ نہیں

شہر کے ہنگامی حالات سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے سینیئر کرائم رپورٹر رجب علی کہتے ہیں ”عام لوگوں کو ہنگامی صورتحال میں ایمبولینس نہ ملنا اب شہر کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ شہر میں کام کرنے والی فلاحی اداروں کی ایمبولینس سروس کسی بھی بڑے حادثے یا واقعے کے بعد درجنوں کی تعداد میں جائے وقوعہ پر موجود رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ زخمیوں کو ریسیکیو کرنے اور لاش کو اٹھانے کی جنگ بھی آئے روز دیکھنے میں آتی ہے لیکن عام بیمار اور معذور شہریوں کو ہسپتال منتقلی کے لیے ایمبولینس حاصل کرنے کے لیے شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے“

دوسری جانب ایمبولینس فراہم کرنے والے بڑے فلاحی ادارے ایدھی اور چھیپا دونوں اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ عام شہریوں کو ایمرجنسی کے وقت ایمبولینس نہیں ملتی

ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر کال کا جواب دیتے ہیں اور گاڑی بھجواتے ہیں جبکہ ان کا عملہ انتہائی تربیت یافتہ ہے، جس کا واحد مقصد مصیبت میں لوگوں کی مدد کرنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close