پنجاب اسمبلی کے 20 ارکان اسمبلی کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد ان حلقوں میں ضمنی انتخابات کا اعلان ہوا تو تحریک انصاف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کر دیا۔ عدالتوں میں معاملہ زیر بحث آیا اور سپریم کورٹ پہنچ گیا جہاں عدالت نے 17 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ کے دوبارہ انتخاب کا حکم دے دیا
عدالت کے اس فیصلے کے بعد ان انتخابات کی گہما گہمی اور اہمیت میں اضافہ ہوگیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خود انتخابی مہم چلانے کے لیے میدان میں اترے تو ن لیگ نے مریم نواز کو میدان میں اتارا
اس صورت حال میں جہاں تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں برتری ملنے کی صورت میں حکومت واپس ملنے کی توقع تھی سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں نے بھی اپنے اپنے طور پر دعوے اور تجزیے پیش کیے
پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں سولہ سولہ نشستیں حاصل کرنے کے دعوے کر رہی تھیں اور تجزیہ کاروں کی اکثریت کا بھی یہی خیال تھا کہ ن لیگ ان ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوگی، تاہم انتخابی نتائج نے ان تمام تجزیہ کاروں کو سرے سے غلط ثابت کر دیا ہے
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کے مطابق تمام تجزیے غلط ثابت ہونے کے پیچھے سب سے بڑا فیکٹر عمران خان ہے
جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جس طرح سے عمران خان نے مہم چلائی، نوجوانوں کو دوبارہ سے موبلائز کیا اور ٹکٹ تقسیم کیے اس وجہ سے تحریک انصاف کو تاریخی کامیابی ملی‘
اتوار کے روز جب پولنگ کا عمل اپنے آخری مراحل میں تھا تو تجزیہ کار اور اینکر طلعت حسین نے ٹویٹ کیا کہ بیس میں دس نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار باآسانی جیت جائیں گے جبکہ چار پر تحریک انصاف جیت جائے گی۔ باقی چھ میں سے چار پر ن لیگ کو برتری حاصل ہے جبکہ دو پر سخت مقابلہ ہوگا
بعد ازاں انہوں نے اپنی دوسری ٹویٹ میں ان حلقوں کا بریک اپ بھی شیئر کیا، جہاں جہاں ان کی پیش گوئی کے مطابق ن لیگ اور پی ٹی آئی کو برتری حاصل تھی
خاتون اینکر غریدہ فاروقی طلعت حسین سے بھی آگے نکلیں اور انہوں نے سترہ سے اٹھارہ سیٹوں پر ن لیگ اور دو سے تین سیٹوں پر پی ٹی آئی کی کامیابی کی پیش گوئی کی
جب تحریک انصاف کو ابتدائی نتائج کے مطابق پندرہ نشستوں پر برتری حاصل ہوئی، تب بھی جیو نیوز سے وابستہ صحافی وقار ستی نے ٹویٹ کیا کہ ’انتخابات کے نتائج کو پرکھنا بھی ایک سائنس ہے، ٹی وی چینلز نتائج فارم 45 جاری ہونے کے بعد بتاتے ہیں، جبکہ نتیجہ تمام پولنگ ایجنٹس کے پاس پہلے آ جاتا ہے، گراؤنڈ پر موجود سورس کا ٹی وی چینلز کےساتھ موازنہ ہی نہیں۔ تسلی رکھیں ’بیانیہ‘ پٹ چکا ہے اور زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ سیٹوں سے آگے کی کہانی نہیں ہے ان (پی ٹی آئی) کی۔‘
جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے طلعت حسین کو جواب دیا اور کہا کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ پیش گوئی بے کار ثابت ہو چکی ہے۔ بعض اوقات کسی کی انا متوازن صحافت کے راستے میں آڑے آجاتی ہے۔ آپ سے اس کی توقع نہیں تھی کہ آپ نے صحافت میں کئی سال گزار دیے ہیں
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے 13 نشستوں کی ضرورت تھی جبکہ ن لیگ کو 11 نشستیں درکار تھیں۔ اب تک آنے والے نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے
کپتان کی جیت: پنجاب ضمنی الیکشن میں آخر ہوا کیا؟
پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شاندار فتح نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت نے تمام اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اتنی واضح کامیابی حاصل کی کہ مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ پی ٹی آئی کو لینڈ سلائیڈ فتح ملی ہے
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اب تحریک انصاف نہ صرف وزارت اعلی کی نشست حاصل کرنے کے قریب ہے بلکہ پاکستان کی قومی سیاست میں بھی اب عمران خان طاقتور ترین افراد میں شامل ہو گئے ہیں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق انتخابات میں عمران خان کی کامیابی اور مسلم لیگ ن کی شکست میں کئی عوامل نے اہم کردار ادا کیا
عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت
اس سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف عالمی سازش کا بیانیہ اپنایا اور ’مقامی ہینڈلرز‘ اور اپوزیشن کو اس سازش میں شریک قرار دیتے ہوئے ’حقیقی آزادی‘ کے لیے مزاحمتی تحریک شروع کی، جسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی
اس حوالے سے ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے کرکے انہوں نے اپنے حامیوں کو نہایت پرجوش کر دیا۔ پنجاب میں ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران بھی چھوٹے چھوٹے شہروں میں ان کے بڑے بڑے جلسوں میں عوام کی تعداد سے ان کی مقبولیت واضح ہو گئی
اس دوران انہوں نے ناصرف حکومت پر تنقید کی بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر وار جاری رکھے اور نام لیے بغیر ’مسٹر ایکس اور مسٹر وائے‘ پر انتخابات پر اثرانداز ہونے کے الزامات بھی عائد کیے۔
عمران خان کی الیکشن مہم میں واضح ہو رہا تھا کہ ان کے لیے عوامی حمایت کی ایک لہر چل پڑی ہے
مسلم لیگ ن کا کمزور بیانیہ اور مہنگائی
ایک طرف عمران خان کا مضبوط بیانیہ تھا تو دوسری طرف ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگانے والی مسلم لیگ ن اس بار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کے باعث کسی پرکشش بیانیے سے محروم تھی
رہی سہی کسر حکومت کے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے کیے گئے مشکل فیصلوں کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی نے نکال دی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریبا سو روپے فی لیٹر کے اضافے نے عام آدمی کی زندگی نہایت مشکل کر دی تھی۔ گو الیکشن سے چند دن قبل عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کے بعد پٹرول کی قیمت میں اٹھارہ روپے اور ڈیزل کی قیمت میں چالیس روپے کی کمی اور سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت بجلی دینے کے اعلان سے کچھ ریلیف دینے کی کوشش گئی مگر شاید دیر ہو چکی تھی اور مہنگائی سے تنگ عوام نے ووٹ کے ذریعے اپنا غصہ دکھایا
پارٹی سے باہر امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے ناراضگی
ضمنی الیکشن ان حلقوں میں ہو رہے تھے جہاں سے حمزہ شہباز کا ساتھ دینے والے منحرف اراکین ڈی سیٹ ہوئے تھے اس لیے مسلم لیگ نے ان 20 میں سے 19 حلقوں میں اپنے پارٹی ورکر کے بجائے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ٹکٹ دیے تھے
مگر شاید پارٹی کے کارکن منحرف ارکان کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے اور پارٹی کے اپنے مقامی امیدواروں نے بھی کھل کر ٹکٹ ہولڈرز کا ساتھ نہیں دیا اس وجہ سے انتخابی مہم موثر نہ ہو سکی
شاید یہی وجہ ہے کہ آخری دنوں میں کئی وفاقی اور صوبائی وزرا نے استعفے دے کر مہم چلائی اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز بھی ایک ایک حلقے میں خود جلسے کرتی رہیں تاہم اس کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہو سکی
سیاسی تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے ووٹر نے منحرف ارکان کو قبول نہیں کیا
‘عمران خان آ گئے’، صحافیوں، سیاستدانوں کی مبارکباد
پنجاب اسمبلی کے 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کو ملکی سیاست میں گیم چینجر کے طور پر دیکھا گیا، پولنگ کے دوران 14 پولنگ اسٹیشن میں معمولی نوعیت کے جھگڑے ہوئے
جیسے ہی غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج آنا شروع ہوئے تو واضح ہوگیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بڑی کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں آ گئی ہے
سرکاری نتائج آنے سے قبل ہی ملک بھر کے صحافیوں، سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں نے ٹوئٹر پر پی ٹی آئی کو مبارکباد کے پیغامات بھیجے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مشورے دیے
صحافی خرم حسین نے کہا کہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ عمران خان پاکستان کے حقیقی مقبول ترین رہنما بن کر ابھرے ہیں
انہوں نے خبردار کیا کہ اسلام آباد پر گہرے بادل چھا گئے ہیں
خاتون صحافی مہرین زہرہ ملک نے ٹوئٹ میں کہا کہ نئے انتخابات میں وزیراعظم شہباز شریف کو مزید مشکلات ہوں گی
ٹی وی اینکر مبشر زیدی نے تجویز دی کہ پی ایم ایل (ن) کو اب اپنی شکست کو تسلیم کرکے باوقار طریقے سے حکومت ان کے حوالے کرنا چاہیے
نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں نامہ نگار سلمان مسعود نے ٹوئٹ کیا کہ یہ ووٹ اسٹیبلشمنٹ کو مسترد کرنے اور ایندھن کی بُلند قیمتیں، مہنگائی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ردعمل ہے
بیرسٹر اسد رحیم خان کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ یہ ووٹ ریفرنڈم تھا
دوسری طرف، محقق اور ایکٹوسٹ عمار راشد نے پی ٹی آئی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ معیشت کی سست روی کے باوجود پنجاب میں عمران خان کا بیانیہ گونج اٹھا
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ پنجاب کی سیاست میں اب ڈیل بریکر نہیں رہا
صحافی سحر بلوچ کا بھی یہ مؤقف ہے
دوسری جانب، بیرسٹر عبدالمعیز جعفری نے روشنی ڈالی کہ یہ شکست پی ایم ایل (ن) کے لیے پیغام ہے کہ ووٹ کو عزت دو
کالم نگار ندیم فاروق پراچہ نے پاکستان تحریک انصاف کو مبارکباد دی اور کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا
دیگر ممالک کی جانب سے بھی پی ٹی آئی کو مبارکباد کے پیغامات دیے گئے، یونیورسٹی آف برسٹل کے لیکچرار احمد جمال پیرزادہ نے ٹوئٹ میں کہا کہ عوامی طاقت اب بھی ریاستی مشینری اور اسٹیبلشمنٹ کی جوڑ توڑ کے خلاف ترپ کا پتہ ہے
اپسالا یونیورسٹی کے پروفیسر اشوک سوین نے ٹوئٹ کیا کہ عمران خان کی پارٹی نے شریف خاندان کے گھر میں انتخابات جیتے ہیں۔