انٹربینک میں روپے کی قدر میں 4.3 روپے کی کمی ہوئی ہے، جس کے بعد ڈالر 215.2 روپے کی ریکارڈ سطح سے تجاوز کر گیا ہے۔ ماہرین اس کی وجہ ملک کی ’سیاسی غیریقینی‘ کی صورتحال کو قرار دے رہے ہیں
پیر کو کاروباری ہفتے کے پہلے دن کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر ڈیڑھ روپے اضافے سے 212 روپے 50 پیسے کی سطح پر آگیا تھا
گزشتہ ہفتے ڈالر 210.95 روپے پر بند ہوا تھا، 22 جون کو 211.93 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد ڈالر کی قدر 4 جولائی تک کم ہو کر 204.56 رپے تک آگئی تھی
آج کراچی انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر ڈیڑھ روپے اضافے سے 212 روپے 50 پیسے کی ریکارڈ سطح پر آگیا
روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ اس کے بعد بھی تیزی سے جاری رہا اور دوپہر تک ڈالر مزید 4.3 روپے مہنگا ہو کر 215.2 روپے کی رکارڈ سطح پر آگیا
تاہم اس کے بعد روپے کی قدر میں بہتری کا رجحان دیکھا گیا اور ڈالر 50 پیسے کمی کے بعد 214 روپے 25 پیسے ہو گیا
میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ ’سیاسی عدم استحکام‘ کو قرار دیا ہے
سعد بن نصیر کہتے ہیں ”پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا ہے کیونکہ ان نتائج نے اتحادی حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے“
ان کا کہنا ہے ”روپیہ دباؤ کا شکار ہے کیونکہ مارکیٹ نئی حکومت کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال کا شکار ہے اور معیشت کے استحکام کے حوالے سے فیصلے موجودہ وزیر خزانہ کریں گے“
ٹریس مارک کی ریسرچ ہیڈ کومل رضوی بھی سعد بن نصیر کے مؤقف سے اتفاق کرتی ہیں اور ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سیاسی منظرنامے کو قرار دیتی ہیں
کومل رضوی کا کہنا ہے ”گزشتہ روز پیش آنے والے سیاسی واقعات کی وجہ سے روپے کی قدر گر گئی، پی ٹی آئی کی جیت نے موجودہ حکومت کے مستقبل کے حوالے سے شکوک پیدا کر دیے ہیں اور جذبات پھر منفی ہو گئے ہیں“
وہ سمجھتی ہیں کہ اسٹیٹ بینک کی مداخلت تک روپیہ اس ہفتے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے گا
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا کا کہنا ہے ”ہمیں یقین ہے کہ ڈالر کی قیمت حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے کیونکہ حکومت یا دیگر ریاستی ادارے اس حوالے سے فکر مند نظر نہیں آتے“
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان سے قرض معاہدے کی تصدیق کے بعد ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا تھا، لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر روپے کی قدر گراوٹ کا شکار ہے
تحریک انصاف نے ضمنی انتخاب میں بیس میں سے کم از کم پندرہ نشستیں جیت کر اپنی برتری ثابت کی اور اب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اس عہدے کے لیے برقرار سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکیں گے
دوسری جانب سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے بارہ جماعتوں کے مقابل فتح حاصل کی ہے، اس لیے اس جیت کے بعد ن لیگ کی سربراہی میں اتحادیوں کی وفاقی حکومت بھی اپنا جواز کھو چکی ہے
دریں اثنا ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے روپے کی قدر میں کمی کا الزام حکومت اور ریاستی اداروں پر ڈالا ہے
انہوں نے نوٹ کیا کہ حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان معاہدہ ہوا ہے، بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں گر گئی ہیں اور شرح سود میں اضافہ ہوا ہے، جس کا مطلب ہے کہ لوگ ڈالر کے بجائے روپے میں دلچسپی لیں گے
ان کا کہنا تھا ”اس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کمی ہونی چاہیے تھی اور لوگوں کو بینک ڈپازٹ کی طرف جانا چاہیے تھا، ہمیں یقین ہے کہ ڈالر کی قیمت حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے کیونکہ حکومت یا دیگر ریاستی ادارے اس حوالے سے فکر مند نظر نہیں آتے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی طرف سے دیا گیا کچھ ہدف پورا کر رہے ہیں“
ظفر پراچا نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ غیر ملکی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ ڈالر کی قیمت کتنی بلند ہوگی جبکہ ترسیلات زر کی شرح نمو میں کمی آئی ہے کیونکہ سمندر پار پاکستانی ناخوش ہیں
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی روپے کی گراوٹ کی وجہ ضمنی انتخابات کے بعد سیاسی غیر یقینی صورتحال کو قرار دیا
انہوں نے کہا ”سیاسی غیر یقینی صورتحال معاشی عدم استحکام کو جنم دیتی ہے اور اس غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے عام انتخابات کے اعلان کرنے کا مطالبہ کیا“
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ یہ سیاسی غیریقینی صورتحال معیشت کا خون بہا رہی ہے اور لوگوں کو زبردست تکلیف دے رہی ہے
انہوں نے موجودہ حکومت کو ’بھونڈے طریقے سے انجام دیا گیا تجربہ‘ قرار دیا اور اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا
اسد عمر کا کہنا تھا ”پاکستان ایسے ناقص فیصلوں کی وجہ سے مزید نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا“