سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بعد پولیس بھی اکثر اپنے کارناموں کی تشہیر کے لیے اسی میڈیم کا سہارا لینے لگی ہے اور ملزمان کی گرفتاریوں اور ان سے برآمد ہونے والے اسلحے کی تصاویر سے لے کر ان کے ساتھ کیے جانے والے فوٹو سیشن آئے روز سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں
لیکن کارکردگی دکھانے کے لیے کیا گیا، ایسا ہی ایک جگاڑی فوٹو شوٹ گجرات کی پولیس کو خاصا مہنگا پڑ گیا
ہوا کچھ یوں کہ پنجاب کے شہر گجرات کے تھانہ دولت نگر میں خاتون پولیس اہلکار موجود نہ ہونے پر ایک مرد اہلکار کو نقاب پہنا کر ملزمہ کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا اور پولیس کی جانب سے یہ فوٹو سیشن میڈیا کو بھی جاری کر دیا گیا
یاد رہے کہ پولیس ایکٹ کے تحت کسی خاتون کی گرفتاری کے وقت خاتون پولیس اہلکار کی موجودگی لازمی ہے اور شاید اسی قانون کا پاس رکھنے کے لیے سے پولیس کو یہ جگاڑ کرنا پڑا
سوشل میڈیا پر بھی صارفین پولیس کے اس انوکھے اقدام کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں
گجرات پولیس کے ترجمان کے مطابق ایس ایچ او تھانہ دولت نگر کی مبینہ منشیات فروش خاتون کے ساتھ بنائی گئی مشکوک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے معاملے کا نوٹس لے لیا گیا ہے اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر گجرات عطا الرحمٰن نے محکمے کی جگ ہنسائی کا باعث بننے پر ایس ایچ او کو معطل کرکے لائن حاضر کر دیا ہے
پولیس حکام کے مطابق ایس ایچ او کے خلاف تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں اور اس سلسلے میں ڈی ایس پی صدر کو انکوائری آفیسر مقرر کیا گیا ہے
واضح رہے کہ گجرات کے تھانہ دولت نگر کے اہلکاروں نے ناجائز اسلحہ برداروں اور منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے دو ناجائز اسلحہ بردار اور ایک خاتون منشیات فروش ملزمہ کو گرفتار کیا، جن کے خلاف الگ الگ مقدمات درج کیے گئے، پولیس نے بعد ازاں گرفتار ملزمان اور خاتون منشیات فروش ملزمہ کی اسلحہ اور منشیات کے ساتھ تصویر بنوائی
پولیس ایکٹ کے مطابق کسی ملزمہ کی گرفتاری کے لیے خاتون اہلکار کا ساتھ ہونا لازم ہوتا ہے، اسی طرح اگر خاتون ملزمہ کو مجاز عدالت میں پیش کیا جاتا ہے یا کسی خاتون ملزمہ کی تصویر میڈیا کو جاری کی جاتی ہے تو قانون کے مطابق خاتون اہلکار کا ہمراہ ہونا لازم ہے
کہتے ہیں نقل کے لیے بھی عقل چاہیے ہوتی ہے، لیکن پولیس سے غلط یہ ہوئی کہ تھانہ دولت نگر میں جس مرد اہلکار کو مبینہ طور پر خاتون اہلکار ظاہر کرکے نقاب پہنا کر خاتون ملزمہ کے ساتھ کھڑا کیا گیا، اس اہلکار کا قد قدرے لمبا تھا اور عام طور پر خواتین کا قد اتنا لمبا نہیں ہوتا، یوں اہلکار کا لمبا قد ایس ایچ او کے لیے مشکلات کا باعث بن گیا
گجرات پولیس کے ترجمان کی پریس ریلیز کے مطابق شکوک و شبہات پیدا کرنے والی بظاہر لیڈی کانسٹیبل کو ملزمہ کے ساتھ کھڑا کیا گیا، جس کے بعد ایس ایچ او نے وہ تصویر مقامی میڈیا کو جاری کی اور سوشل میڈیا گروپس میں بھی شیئر کر دی جو بعد ازاں وائرل ہو کر محکمے کے لیے بدنامی اور جگ ہنسائی کا باعث بنی
ڈسٹرکٹ پولیس حکام نے ’غیر ذمہ دارانہ رویے پر ایس ایچ او تھانہ دولت نگر کو معطل کر کے پولیس لائن تبدیل کر دیا ہے اور واقعے کی مکمل انکوائری کے لیے ڈی ایس پی صدر کو ہدایت کی ہے کہ چوبیس گھنٹے کے اندر معاملے کی مکمل انکوائری کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔‘
ڈی ایس پی صدر کے بقول، ابتدائی تحقیقات کے مطابق جب منشیات فروش ملزمہ گرفتار کی گئی اس وقت خاتون اہلکار تھانے میں موجود تھیں، لیکن جب کچھ گھنٹوں بعد تصاویر بنوائی گئیں تو خاتون اہلکار چھٹی کر کے اپنے گھر جا چکی تھیں، جس وجہ سے مرد اہلکار کو نقاب پہنا کر ساتھ کھڑا کیا گیا، جو کہ ایک غلط اقدام تھا
تھانہ دولت نگر کے ایس ایچ معطل ہونے کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تصویر میں ’لیڈی پولیس ہی ہے، بس اس کا قد ذرا بڑا ہے۔‘
جہاں اس واقعے کی تصاویر سامنے آنے پر علاقے کے افراد حیران ہیں وہیں سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے بھی جاری ہیں
ایک صارف زین بسرا نے قد کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ‘روسی لیڈی کانسٹیبل ہوں۔‘
عاطف عزیز کا کہنا تھا کہ ’یہ پنجاب پولیس ہے جو کچھ بھی کر سکتی ہے۔‘
ثاقب راجپوت نے لکھا کہ ‘پاکستانی جگاڑو‘ جس کے جواب میں عدنان صفدر اعوان نے پولیس کا دفاع کرتے ہوئے لکھا کہ ‘بہرحال قانون کی پیروی کرنے کی کوشش کی گئی ہے!‘
لیکن بدقسمتی سے ’قانون کی پیروی‘ کا بس قد ذرا لمبا نکلا۔۔