ایک نئی سائنسی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہاتھیوں میں موجود ایک جین سے کینسر کا علاج ممکن ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں کے جسم میں ٹیومر سے لڑنے والے پروٹینز کی ایک فوج موجود ہے، جو میوٹیٹڈ سیلز (کینسر کے خلیات) کو تباہ کر دیتے ہیں
اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کیوں زمین کے سب سے بڑے زمینی جانور یعنی ہاتھی میں انسانوں کے مقابلے میں کینسر کا امکان پانچ گنا کم ہوتا ہے
ہاتھی کے ان جینز کو استعمال کرتے ہوئے کینسر، جو دنیا کے سب سے زیادہ مہلک امراض میں سے ایک ہے، کے لیے ایک سائز کی تھراپی تیار کی جا سکتی ہے، جو اس کی تمام اقسام کے لیے سود مند ہوگی
آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ اور اس تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر فرٹز وولراتھ کہتے ہیں ”یہ پیچیدہ اور دلچسپ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ ہاتھیوں میں (ان جینز) کا کس قدر متاثر کن حجم سے بھی کہیں زیادہ حصہ موجود ہے اور یہ کتنا ضروری ہے کہ ہم ان جانوروں کو نہ صرف محفوظ رکھیں بلکہ ان کا تفصیلی مطالعہ بھی کریں“
ان کا کہنا ہے ”آخر کار ان (ہاتھیوں) کے جینیات اور فزیالوجی سب ارتقائی تاریخ کے ساتھ ساتھ آج کے ماحولیات، خوراک اور رویے سے تبدیل ہوئے ہیں“
اپنے پانچ ٹن وزنی جسم اور لمبی عمر کے باوجود ہاتھی کینسر کے خلاف زیادہ مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہیں، جن میں اس مرض سے اموات کی شرح محض پانچ فیصد سے بھی کم ہے جبکہ انسانوں میں یہ شرح 25 فیصد تک ہے
یہی وہ بات ہے، جس نے کئی دہائیوں سے ماہرین حیاتیات کو حیران کر رکھا ہے کیوں کہ اصولاً حجم میں بڑی مخلوق کو زیادہ خطرہ ہونا چاہیے
خلیے کسی بھی جاندار میں زندگی بھر تقسیم ہوتے رہتے ہیں، اس لیے ہر ایک کو ٹیومر کا خطرہ ہوتا ہے
لیکن ہاتھیوں کو اپنے والدین سے P53 نامی جین کے چالیس ورژن وراثت میں ملتے ہیں جن میں سے بیس ماں اور بیس باپ کی طرف سے ملتے ہیں۔ انہیں ’جینوم کا گارڈین‘ کہا جاتا ہے
جبکہ باقی تمام میملز میں ان جینز کی تعداد دو ہوتی ہے
بائیو کیمیکل تجزیہ اور کمپیوٹر سمیلیشن سے بھی ثابت ہوا ہے کہ چالیس ورژن جینز ساختی طور پر قدرے مختلف ہوتے ہیں
ہاتھیوں میں یہ جینز کینسر کے خلاف مزاحمت کے لیے ہمارے معمول کے دو جینز کے مقابلے میں بہت وسیع رینج فراہم کرتے ہیں۔ انسانوں اور دیگر تمام میملز میں انہیں یہ جین ایک ماں اور ایک باپ کی طرف سے ملتے ہیں
فرانس کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ سے وابستہ اور اس تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر رابن فاریئس کا کہنا ہے ”یہ ہماری معلومات کے لیے ایک دلچسپ پیش رفت ہے کہ ہاتھی میں پائے جانے والا p53 نامی جین کس طرح کینسر کی نشوونما کو روکنے میں معاون ہے“
ان کا کہنا ہے ”انسانوں میں یہی p53 پروٹین یہ فیصلہ کرنے کے لیے ذمہ دار ہے کہ آیا خلیات کو پھیلنا بند کر دینا چاہیے یا خود مر جانا جانا چاہیے لیکن p53 یہ فیصلہ کیسے کرتا ہے اس کی وضاحت کرنا مشکل ہے“
ہاتھیوں میں متعدد p53 شکلوں کا وجود مختلف صلاحیتوں کے ساتھ ٹیومر کو ختم کرنے والی سرگرمی پر نئی روشنی ڈالنے کے لیے ایک دلچسپ اور نیا طریقہ پیش کرتا ہے
جرنل مالیکیولر بائیولوجی اینڈ ایوولوشن میں شائع ہونے والے نتائج اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ p53 پروٹین کیسے متحرک ہوتے ہیں
وہ ایسی ادویات تیار کرنے کا دروازہ کھولتے ہیں، جو کینسر پیدا کرنے والے ماحول کے خلاف اس کی حساسیت اور ردعمل کو بڑھاتی ہیں
اسپین میں قائم یونیورسٹی آٹونوما ڈی بارسلونا سے منسلک اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر کونسٹنٹینوس کاراکوسٹس نے اس حوالے سے بتایا ”تصوراتی نظریے کے مطابق ساختی طور پر تبدیل شدہ p53 پولز کا بڑھنا اجتماعی طور پر یا ہم آہنگی سے خلیے میں متنوع تناؤ کے ردعمل کو منظم کرتا ہے جو سیل ریگولیشن کا ایک متبادل میکانسٹک ماڈل قائم کرتا ہے، جس کی بائیو میڈیکل ایپلیکیشنز کے لیے ممکنہ اہمیت ہے“
واضح رہے کہ ہاتھی کو ان کے قیمتی دانتوں کی وجہ سے بے دریغ شکار کیا جاتا ہے جس سے یہ معدومیت کے شدید خطرے سے دوچار ہیں
گذشتہ صدی کے دوران ہاتھیوں کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اب افریقہ میں تقریباً چار لاکھ اور ایشیا میں ایک اندازے کے مطابق صرف تیس ہزار ہاتھی رہ گئے ہیں
ایک صدی پہلے دونوں براعظموں میں ہاتھی عام تھے۔ ہاتھیوں کو ان کےقدرتی مسکن میں کمی اور گلوبل وارمنگ سے مزید خطرات کا سامنا ہے۔