دنیا دن بہ دن چھوٹی سے چھوٹی ہوتی جارہی ہے، اور بہتر کے لیے نہیں، بلکہ بدتر کے لیے۔۔۔
متعدد سائنسی مطالعات سامنے آئے ہیں اور یہ تجویز کیا ہے کہ 2100 کے آخر تک، دنیا کی متعدد انواع سیارہ زمین سے ختم ہو جائیں گی، جس سے بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑی ماحولیاتی تباہی پیدا ہوگی
ایک اندازے کے مطابق ہر بیس منٹ کے بعد ایک جانور یا پودوں کی نسل معدوم ہو جاتی ہے اور پچھلے پچاس سالوں میں صنعتی انقلاب کے دور کے مقابلے میں جانوروں کے ناپید ہونے کی شرح میں چالیس گنا زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے
مستقبل میں وہ دن زیادہ دور نہیں، شاید ہمارے پوتے پوتیاں ہاتھیوں، شیروں اور دیگر جانوروں کو صرف حیاتیات کی کتابوں کے ذریعے معدوم ہونے والی مخلوقات کے طور پر دیکھ اور جان سکیں گے، جیسے اس وقت ہم ڈایناسور کے بارے میں پڑھتے ہیں
یہ کسی افسانوی ناول یا ٹیلی ویژن سیریز کا منظر نامہ نہیں ہے، جسے ہم اپنے فارغ وقت میں تفریح کے لیے دیکھتے ہیں۔ یہ ایک فوری پیغام ہے، جسے پوری دنیا کے درجنوں سرکردہ ماہرین حیاتیات نے تشویش کے ساتھ اٹھایا ہے۔ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اگر سخت حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو 2100 تک دنیا کی بہت سی سب سے بڑی ممالیہ نسلیں معدوم ہو سکتی ہیں
اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی کے کالج آف فاریسٹری میں ماحولیات کے ممتاز پروفیسر اور بائیو سائنس کے ذریعے شائع ہونے والے ’سیونگ دی ورلڈز ٹیریسٹریل میگافاونا‘ جریدے کے سرکردہ مصنف ولیم رپل اس معاملے پر قابل ذکر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”میں جتنا زیادہ دنیا کے سب سے بڑے زمینی ممالیہ جانوروں کو درپیش خطرات کو دیکھتا ہوں، اتنا زیادہ فکر مند ہوتا ہوں کہ ہم ان جانوروں کو کھو سکتے ہیں، جیسے سائنس یہ دریافت کر رہی ہے کہ وہ ماحولیاتی نظام اور لوگوں کو فراہم کی جانے والی خدمات کے لیے کتنے اہم ہیں۔ یہ واقعی ان کے تحفظ کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے کیونکہ ان کی تعداد اور رہائش گاہوں میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔“
تازہ تحقیق
اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تغیّر عالمی سطح میں جانوروں کی معدومیت کے بحران کو شدید تر بنا رہا ہے
یونیورسٹی آف مِنیسوٹا کی سربراہی میں تحقیق کرنے والی محققین کی ایک ٹیم کا کہنا ہے ”تمام انواع کے تقریباً 30 فی صد 2100ع تک ختم ہوجائیں گے یا ان کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔ ایسا ہونے کی بڑی وجہ حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) کو پہنچنے والا نقصان، انسانی آبادی اور موسمیاتی تغیّر ہے
غیرمنافع بخش ادارے ’مرکز برائے حیاتیاتی تنوع‘ میں خطرے سے دوچار انواع کے ڈائریکٹر نوح گرینوالڈ نے ان اعداد کو کافی خطرناک قرار دیا ہے
گرینوالڈ کہتے ہیں ”موسمیاتی تغیّر کو ایک واضح مسئلہ بننے میں کئی برسوں کا عرصہ لگا ہے۔ جانوروں کی معدومیت کا بحران موسمیاتی تغیّر کی شدت کا ایک حقیقی نتیجہ ہے“
محققین کی ٹیم اس نتیجے پر ایک سروے کے بعد پہنچی، جس میں شرکت کے لیے دنیا بھر کے ماہرین کو دعوت دی گئی اور 187 ممالک سے تعلق رکھنے والے 3331 سائنسدان، جو حیاتیاتی تنوع کا مطالعہ کر رہے ہیں، کے جوابات موصول ہے
محققین کے گروپ کے چیف سائنسدان ہیلی ہیملٹن کا کہنا ہے ”جن مخلوقات کو خطرہ لاحق ہے، ان میں زیادہ تر پودے اور حشرات الارض شامل ہیں۔ ان کے ساتھ بغیر ریڑھ کی ہڈی والے جانور بھی شامل ہیں“
ایک اہم سوال
فطرت کے قوانین کے مطابق اگر ایک نوع ختم ہو جائے تو دوسری نوع بن جائے گی۔ پرجاتیوں کی تشکیل کی شرح عام طور پر معدومیت کی شرح کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتی ہے تاکہ قدرتی دنیا ہمیشہ متوازن اور ارتقا پذیر رہے۔ تو پھر ہمیں جانوروں کے ناپید ہونے کی اتنی پرواہ کیوں کرنی چاہیے؟
قدیم زمانے میں، یہ ہمیشہ کوئی قدرتی آفت ہوتی تھی، جو کسی پرجاتی کے معدوم ہونے کا سبب بنتی تھی۔ لیکن آج کل، محققین کے پاس اس بات پر یقین کرنے کے لیے مزید شواہد موجود ہیں کہ 99 فیصد سے زیادہ جانوروں کی ناپیدگی انسانوں کی وجہ سے ہوتی ہے- ایک ایسی نوع جو ہمیشہ دوسری پرجاتیوں پر اپنا تسلط جمانا چاہتی ہے۔ قدرتی وسائل کا انسانی استحصال جیسے اندھا دھند شکار، جنگلات کی کٹائی، قابل کاشت زمین کا بے تحاشہ استعمال، سطح آب کی آلودگی، جھیلوں اور تالابوں کا خشک ہونا، ماحول کو تباہ کر رہا ہے۔ غیر پائیدار سیاحتی سرگرمیاں، غیر منصوبہ بند تعمیرات، صنعتی سرگرمیوں سے استحصال نے نقصان دہ اخراج کے ذرائع پیدا کیے ہیں، جو آب و ہوا کو گرم بناتے ہیں۔ اوزون کی تہہ میں سوراخ پیدا کرنا زمین پر زندگی کے لیے براہ راست خطرہ ہے
حالیہ برسوں میں، دنیا بھر کے لوگ مسلسل غیر متوقع قدرتی آفات جیسے طوفان، سیلاب، سونامی اور زلزلوں سے دوچار ہوئے ہیں، جن میں سالانہ دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ اس قیمت کا صرف ایک حصہ ہے، جو انسانوں کو فطرت کے ساتھ سلوک کے لیے ادا کرنا پڑتا ہے
یہ واضح ہے کہ ہمیں بحیثیت معاشرہ اس بات سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کہ ہماری تباہی اور غیر پائیدار ترقی تیزی سے ہماری اپنی زندگیوں اور مستقبل کو متاثر کر رہی ہے۔ اگر ہم صرف قلیل مدتی فوائد پر نظر ڈالیں تو طویل مدت میں انسانیت کو بہت زیادہ اور غیر متوقع نقصانات اٹھانا ہوں گے، جن کے لیے ہم ابھی تک تیار نہیں ہیں۔