صوبہ پنجاب میں اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے اور یہ معمہ کئی ماہ سے حل نہیں ہو پا رہا، معاملہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کے سامنے ہے
اپریل میں بظاہر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے معزولی، مداخلت اور سازش کی بحث سے لے کر اداروں کی جانب سے نیوٹرل کی گردان تک اور اب ’نرم مداخلت‘ کے بیان تک ملکی سیاست میں ایک بھونچال سا برپا ہے
سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ لیکن ’قانونی‘ طور پر مرکز میں بحران پیدا نہ ہوا، کیونکہ جس طرح اتحادی حکومت کے قیام کے لیے عدالتیں کھلیں ،اسی طرح کئی دیگر معاملات میں بھی یہی صورتحال نظر آتی رہی
لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جس طرح بھونڈے انداز میں عثمان بزدار کو ہٹا کر وزیر اعظم کے بیٹے حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں سے لے کر اداروں تک شامل رہے ، اس سے پیدا ہونے والا سیاسی بحران اب بھی برقرار ہے اور قانونی طور پر یہ واضح نہیں ہو پا رہا کہ اقتدار میں کون ہے
کئی ماہ سے جاری بحران کے خاتمے کی امید تب پیدا ہوئی جب ضمنی انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کو عددی اکثریت حاصل ہو گئی
تاہم اس مرتبہ بھی ظاہری عددی اکثریت کے برعکس نتیجہ سامنے آیا۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت نے ایک مبینہ خط کے ذریعے اپنی ہی جماعت کے امیدوار کی بجائے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کے بارے میں احکامات پر مشتمل خط لکھ دیا تھا
پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے اسی کی بنیاد پر ق لیگ کے دس ووٹ مسترد کر دیے اور حمزہ شہباز کو فاتح قرار دے دیا
یوں اب معاملہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ رات کے وقت عدالت کھلنے پر تنقید کرنے والی تحریک انصاف اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹرینڈ پر تنقید کرنے والی مسلم لیگ نون، دونوں جماعتیں ٹوئیٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ٹرینڈ چلانے کا مقابلہ کرتی دکھائی دیں
ملک کے لگ بھگ تمام قانونی ماہرین پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے ق لیگ کے ووٹوں کو مسترد کرنے کی رولنگ کو آئینی رو سے غلط قرار دے رہے ہیں۔ قوی امکان یہی ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے رد کرنے کا فیصلہ سنائے گی
ایسے میں اپنی پوزیشن کمزور دیکھ کر مسلم لیگ ن نے پیشگی طور پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر تنقید شروع کر دی ہے اور اس کے رہنما فل کورٹ بینچ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں ان کے حامیوں کی جانب ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں
کچھ ہیش ٹیگز میں تو پاکستانی سوشل میڈیا کی روایت کے مطابق انتہائی نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے گئے، لیکن زیادہ چلنے والا ہیش ٹیگ ’ہم خیال بینچ نامنظور‘ ہے
ٹوئٹر کے مطابق اب تک اس ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ٹویٹس کی جا چکی ہیں
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کمپنی ڈیٹامائنر کے مطابق یہ ٹرینڈ آج صبح پونے نو بجے شروع ہوا۔ ابتدائی گھنٹوں میں اس ہیش ٹیگ کے ساتھ فی منٹ قریب 100 ٹویٹس کی جاتی رہیں لیکن شام تک یہ رفتار 50 ٹویٹس فی منٹ سے کم ہو چکی تھی۔ ڈیٹامائنر کے مطابق اس ہیش ٹیگ کے ساتھ 24 ہزار ٹوئیٹس کی گئیں
سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے اس ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا ”مسلم لیگ ن کے ووٹر ہم سے یہ پوچھتے ہیں کے کیا وجہ ہے کہ ہر مرتبہ چند مخصوص جج ہی پی ٹی آئی کے کیس سنتے ہیں۔ کیا اور ایسے جج نہیں ہیں جو اتنے اہل ہوں کے وہ بھی ان بینچوں کا حصہ بنیں۔ میری مودبانہ گزارش ہے چیف جسٹس سے کہ سپریم کورٹ کا فل بنچ تشکیل دیا جائے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی ججز نے رات بارہ بجے عدالت کھول کر قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قسم سوری کی رولنگ کو غلط قرار دیا تھا، جس سے شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہوئی تھی
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے حامی ’آج سازش نہیں چلے گی‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کر رہے ہیں، جو ن لیگی ہیش ٹیگ سے کہیں آگے ہے
ٹوئٹر کے مطابق اس ہیش ٹیگ سے چھ لاکھ سے زائد ٹویٹس کی جا چکی ہیں۔ ڈیٹامائنر کے مطابق اس ہیش ٹیگ کا استعمال جمعے کے روز شروع ہوا تھا۔ آج بھی اوسطا 90 ٹویٹس فی منٹ کی جاتی رہیں اور آج مجموعی عوامی ٹوئیٹس کی 38 ہزار نوٹ کی گئی
ڈجیٹل میڈیا کے بارے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد نے اس ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے لکھا ”پنجاب میں تین بار الیکشن اور دو بار حلف کے باوجود حمزہ وزیراعلٰی نہ بن سکا کیونکہ عددی اکثریت نہیں تھی۔ اکثریت نہ ہونے کے باوجود حمزہ کے وزیراعلٰی ہونے کی شہباز شریف کی ضد نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے‘‘
تحریک انصاف کی ایم پی اے مومنہ باسط نے ٹویٹ کیا ”ہم نے تو ایسا کچھ کہا ہی نہیں جس پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی، عدالت آ کر بتا دیں کے کہاں لکھا ہے، پر ڈپٹی اسپیکر عدالت آنے کو تیار ہی نہیں۔ کیا اس پر توہین عدالت نہیں لگتی‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ فواد چوہدری نے مسلم لیگ نون کی جانب سے ججوں کے خلاف ٹرینڈ چلائے جانے پر تنقید کی ہے، جبکہ حالیہ عرصے میں ان کی جماعت کے حامی بھی ایسے ہی ٹرینڈ چلانے میں پیش پیش دکھائی دیے ہیں
عدالتی فیصلہ کیا آتا ہے اور پنجاب کا اقتدار کس کو ملے گا، یہ تو فیصلے کے بعد ہی واضح ہوگا۔ تاہم سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلا کر رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی دوڑ میں اب بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے بھی تحریک انصاف سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔