دنیا بھر میں نظام زندگی کو درہم برہم کرنے والے کورونا وائرس کے خلاف ایک ایسی موثر ویکسین تیار کر لی گئی ہے جس کے ابتدائی تجرباتی نتائج کے بعد دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ نوے فیصد لوگوں کو کووڈ کی لپیٹ میں آنے سے بچا سکتی ہے
یہ ویکسین تجرباتی سطح پر چھ ملکوں میں 43500 لوگوں پر استعمال کی گئی اور اس کے بارے میں اب تک کوئی شکایت سامنے نہیں آئی ہے
مشترکہ طور پر یہ ویکسین تیار کرنے والی دو بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں فائزر اور بائوٹیک کا ارادہ ہے کہ وہ اس ویکسین کی منظوری ہنگامی بنیادوں پر حاصل کریں تاکہ اس ماہ کے آخری تک اس کا استعمال شروع کیا جا سکے
واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک درجن سے زیادہ ویکسینوں پر کام ہو رہا ہے جو کہ تجربات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں ہیں لیکن یہ پہلی ویکسین ہے جس کے نتائج سامنے آئے ہیں
ماہرین کے مطابق اس ویکسین کی تیاری میں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اس میں وائرس کے جنیاتی کوڈ کو خون میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ انسانی جسم کے مدافعاتی نظام کو اس سے نمٹنے کے لیے تربیت دی جا سکے
پہلے تجربات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ویکسین جسم کو اینٹی باڈیز تیار کرنے میں مدد کرتی ہے اور مدافعتی نظام کا ایک اور حصہ جسے ٹی سیل کہا جاتا ہے وہ کورونا وائرس کو ختم کرتا ہے
تین ہفتوں کے وقفے سے اس ویکسین کی دو خوراکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تجرباتی مرحلے میں امریکہ، جرمنی، برازیل، ارجنٹینا، جنوبی افریقہ اور ترکی میں اس کے استعمال سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اس ویکسین کی دوسری خوراک کے سات دن بعد نوے فیصد لوگوں کو اس وائرس سے محفوظ کر لیا گیا۔
فائزر کو یقین ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک پانچ کروڑ خوراکیں تیار کر سکتی ہے اور سنہ 2021 کے اختتام تک ایک ارب تیس کروڑ خوارکیں دستیاب کر دے گی۔
تاہم اس ویکسین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ اس ویکسین کو انتہائی کم درجہ حرارت یعنی منفی 80 سینٹی گریڈ پر رکھا جانا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور سوال کا جواب تلاش کرنا ابھی باقی ہے کہ اس ویکسین کا اثر کتنے عرصے تک رہتا ہے اور اس کو بنانے والی کمپنیوں نے مختلف عمر کے افراد میں اس کے موثر ہونے کے بارے میں بھی کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے ہیں۔
فائزر کمپنی کے چیئرمین ڈاکٹر ایلبرٹ بورلا کا کہنا ہے کہ ‘وہ بڑی حد تک اس ہدف کو حاصل کرنے کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو ایسی دریافت فراہم کر دی جائے جس سے صحت کے اس عالمی بحران پر قابو پانے میں مل سکے۔
بائیو ٹیک کمپنی کے شریک بانی پروفیسر اوگر ساہن نے ان نتائج کو ایک سنگ میل سے تعبیر کیا۔ یہ ڈیٹا جو اب تک حاصل ہوا ہے وہ حتمی تجزیہ نہیں ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے تک تفصیلی نتائج سامنے آ جائیں گے جن کی بنیاد پر وہ ویکسین کو منظوری کے لیے متعلقہ حکام کے سامنے رکھ سکتے ہیں
اس وقت تک مختلف ممالک ویکسین کے استعمال کے لیے اپنی حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں۔ برطانیہ نے پہلے ہی چار کروڑ خواراکوں کا آڈر کر دیا ہے جو کہ دو کروڑ افراد کے لیے کافی ہوں گی
دوسری جانب امریکی اور جرمن کمپنی کے اعلان کے بعد روس نے بھی 90 فیصد مثبت نتائج کی حامل ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی وزارت صحت کے ترجمان نے پیر کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے انسداد کے لیے تیار کی گئی اس کی ویکسین ’’سپوتنک وی‘‘ مرض کے خلاف 90 فیصد سے زائد موثر ہے، ویکسین کو ہرطرح سے آزمایا گیا ہے اور اسے مؤثر پایا گیا ہے
وزارت صحت کے ماتحت ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر اوکسانہ ڈراپکینا نے کہا ہے کہ ہم ویکسی نیشن پروگرام میں شامل لوگوں پر سپوتنک وی ویکسین کے پڑنے والے اثرات کی مانیٹرنگ کے ذمہ دار ہیں.