یمن میں شہد کی پیداوار کا کاروبارہ انتہائی منافع بخش ہوا کرتا تھا، لیکن برسوں سے جاری جنگ نے اس کاروبار سے جڑے لوگوں کو بھی شدید متاثر کیا ہے
محمد سیف کسی دور میں شہد کی پیدوار کا منافع بخش کاروبار کیا کرتے تھے، مگر جنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے سیف سے اس کاروبار کا منافع چھین لیا ہے اور اب وہ خستہ حالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے سیف نے بتایا ”ہمارا کئی پشتوں سے چلا آ رہا یہ کاروبار اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ شہد کی مکھیوں کو کسی عجیب سی شے نے متاثر کیا ہے۔ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر ہے یا جنگ کا۔۔۔ ہمیں بالکل نہیں پتا‘‘
یمن اس وقت دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ سن 2014 میں ایران نواز حوثی دہشتگرد گروپ اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی یمن میں تباہ کن حالات کا باعث بنی ہے۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں بیماریوں اور خوراک کی قلت کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ملک کا بنیادی شہری ڈھانچا بھی تباہ ہو گیا ہے
تاہم اپریل میں اقوام متحدہ کی قیادت میں طے پانے والے سیز فائر معاہدے کے بعد اس ملک میں کسی حد تک امن ہوا ہے، جس کے بعد سیف جنوب مغربی خطے تعز میں پہاڑوں کے دامن میں ایک جگہ منتقل ہوئے ہیں۔ جنگ سے قبل سیف کے اہل خانہ کے پاس شہد کی مکھیوں کے تین سو کے قریب چھتے (ہائیوز) تھے، جو اب فقط اسی رہ گئے ہیں
ماہرین یمن کے شہد کو دنیا کا سب سے بہترین شہد قرار دیتے ہیں، جس میں روئل سدر نمایان ہے، جسے طبی خواص کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق شہد یمنی اقتصادیات میں بنیادی اہمیت کا حامل شعبہ ہے، جس سے ایک لاکھ گھرانوں کی آمدن وابستہ ہے
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس کے مطابق ”یمن میں اس صنعت کو جنگ کے بعد سے غیر معمولی مسائل کا سامنا ہے۔ مسلح تنازعے اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس تین ہزار برس پرانے شعبے کو بقا کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے“
سیف کہتے ہیں ”گزشتہ برس ہمارے گاؤں میں ایک میزائل سیدھا مکھیوں کے مصنوعی چھتوں کے مقام پر گرا۔ اس دیہات کا سب کچھ ختم ہو گیا۔ جنگ نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔ جنگجوؤں نے ایسے کئی مقامات کو نشانہ بنایا ہے، جہاں شہد کی مکھیاں ہوا کرتی تھیں‘‘
یہ بات اہم ہے کہ متعدد عالمی ادارے اب شہد کی مکھیوں کا کاروبار کرنے والوں کی معاونت کر رہے ہیں، تاکہ وہ دوبارہ اپنے روزگار کی جانب لوٹ سکیں۔ سن 2021 میں ریڈ کراس کی جانب سے اس شعبے میں چار ہزار افراد کی مدد کی گئی۔