درختوں کا دیوانہ، نثار بادینی

سلمان بلوچ

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔

فیض احمد فیض کی یہ سطور آج نثار بادینی کے حوالے سے ذہن میں ابھر آئیں۔۔ نثار بادینی، جو سید ھاشمی ریفرنس لائبری کے نوشکی میں نمائندہ تھے، ساتھ ساتھ وہ نوشکی گرین کمپئن کے سرپرست اعلٰی بھی تھے

بلوچستان‌ بھر سے لوگ کوئٹہ جاتے تو ایک خوش رو چہرہ انتظار میں ہوتا، غریب جہاں کا بھی ہو، ان کے لیئے علاج معالجے کا بندوبست کرنا، تعلیمی کاموں میں مدد کرنا، بورڈ آفس میں ہر دوسرے دن جاتے، تاکہ اسٹوڈنٹس کو دفاتر میں مشکلات نہ ہوں۔۔ اسٹوڈنس اپنے گھر پر رہتے اور ان کے لیئے نثار ان دفاتر میں خوار ہوتے نہ‌ تھکتے۔۔ وہ جرم سے نفرت کرنے والے، علم‌ دوست شخص تھے، جنہیں ہمیشہ دوسروں‌کی مدد کرتے ہوئے پایا

میری سید ھاشمی ریفرنس لائبریری میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی اور پر زندگی بھر مجھے یہی لگا کہ وہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے۔۔ میری قربت سے وہ ہر اس شخص کے قریب رہے، جس سے میرا واسطہ تھا

ایک شکاری سے ماحول کے تحفظ کے طرف آنے کے بعد وہ شجر کاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ شجر کاری سے محبت کا یہ شجر ان کے دل میں جنون کی مانند یوں بڑھا، کہ اس کے بعد وہ ہر ایک سے ملاقات میں شجرکاری کی بات کرتے اور لوگوں کو اس طرف مائل کرتے

ان کی کاوشوں سے ملیر میں بہت سارے دوست شجرکاری کی طرف مائل ہوئے اور دوست ان کے لیئے پودے رکھتے، وہ ان پودوں کو محنت کے ساتھ نوشکی لے جاتے۔۔ اس‌ کے علاوہ وہ ملیر کی مختلف نرسریوں سے رابطے میں تھے، جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں پودے اپنی جیب سے خریدتے تھے اور نوشکی گرین کمپین کے دوستوں کے ساتھ لگاتے یا مسجدوں اسکول یا باغیچوں میں لگواتے۔۔ اس کے لیئے نہ کبھی اس نے چندہ جمع کیا، نہ ہی سرکاری اداروں کی فنڈنگ کا انتظار کیا۔۔ وہ فاریسٹ ڈپارٹمنٹ سے زیادہ ایکٹیو تھے، بلکہ یوں کہیں کہ وہ ایک چلتا پھرتا فاریسٹ ڈپارٹمنٹ تھے

وہ ہر دوست سے کہتے کہ پودوں کو پانی دیتے ہوئے اپنی تصویر مجھے دیں تاکہ نوشکی گرین‌ کمپین کے پیج سے لوگوں میں شعور بیدار ہو۔ وہ کیکر کے درختوں تک کو یوں تراشتے کہ وہ جھاڑی سے خوبصورت درخت درخت بن جائیں، یوں کہیں کہ وہ ایک دیوانے تھے، درختوں کے دیوانے!

مجھے نہیں پتہ کہ کیا کبھی ان کی یہ ساری خدمات اور احسانات کبھی نوشکی یا بلوچستان کے لوگوں کے سامنے ظاہر ہونگے یا نہیں، پر مجھے یہ پتہ ہے کہ مجھ جیسے اندھے سے کاٹھی کا سہارا چھن گیا ہے

انہیں مارنے والوں نے بلوچستان کے شعور، علم دوستی، ماحول دوستی پر حملہ کیا ہے اور اس لازوال شخصیت کا متبادل تو ممکن نہیں، پر ان کی علم‌ دوستی، انسان دوستی اور ماحول دوستی کا‌ قصہ نہ ہونا اور صرف افسوس کا اظہار کرنا ایک المیہ ہوگا

نثار بادینی کی شہادت آنے والی نسلوں کو علم، دوستی، پیار اور سرسبز ماحول سے دور کرنا ہے۔

وہ نہ صرف درختوں سے پیار کرتے تھے، بلکہ خود بھی ایک سایہ دار درخت کی طرح تھے۔۔ آج اس سایہ دار درخت کی گھنی اور شفیق چھاؤں سے محروم ہونے والے ہی جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کھویا ہے

عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے

شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close