سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی نے گذشتہ دو سالوں کے دوران سعودی عرب کی جیلوں سے ایک سو پچپن پاکستانی قیدیوں کی رہائی میں مدد فراہم کی ہے
ناصر اقبال نامی پاکستانی شہری نے اس کام کے لیے ساڑھے ستائیس لاکھ ریال کج خطیر رقم کا انتظام کرکے جرمانوں کی ادائیگی کی، جس کے بعد یہ رہائیاں ممکن ہو سکیں
واضح رہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے آتے ہیں، جہاں پچیس لاکھ پاکستانی شہری مقیم ہیں
انتالیس سالہ ناصر اقبال کا تعلق پاکستان کے شہر گجرات سے ہے، وہ لگ بھگ بیس سال قبل سعودی عرب گئے تھے
وہ جدہ میں معدن البینا نامی کنٹریکٹ کمپنی میں بطور پروجیکٹ مینیجر کام کر رہے ہیں
ناصر اقبال کا کہنا ہے ”میں نے یہ پروجیکٹ (فلاحی سرگرمی) ستمبر 2020ع میں شروع کیا تھا اور پوری (پاکستانی) کمیونٹی کی مدد سے ہم ابھی تک ایک سو پچپن پاکستانی قیدیوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں“
انہوں نے بتایا ”اس کے لیے ہم نے مجموعی طور پر ساڑھے ستائیس لاکھ سعودی ریال کے جرمانے ادا کیے ہیں“
ناصر نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب میں قید ایک پاکستانی شہری کی پریشان والدہ کی ایک فون کال نے انہیں یہ اقدام کرنے پر آمادہ کیا تھا
انہوں نے بتایا ”مجھے ایک بزرگ خاتون کا فون آیا جو گذشتہ چھ سالوں سے اپنے بیٹے کے سعودی عرب کی جیل میں قید ہونے کی وجہ سے انتہائی پریشان تھیں، جن پر معمولی جرائم کے الزام میں ساڑھے چھ ہزار ریال جرمانہ عائد کیا گیا تھا“
ناصر اقبال کے مطابق، خاتون کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان مالی مجبوریوں کی وجہ سے جرمانہ ادا کرنے سے قاصر ہے
انہوں نے مزید کہا ”میں نے فوری طور پر قیدیوں کے حوالے سے چھان بین کی، جس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایک سو سات ایسے پاکستانی قیدی ہیں، جن کی مالی حالت ایسی نہیں تھی، کہ وہ اپنے جرمانے ادا کر سکیں اور پاکستان میں اپنے اہل خانہ کے پاس واپس جا سکیں“
ناصر نے جدہ میں پاکستانی قونصل خانے اور قیدیوں کے اہل خانہ سے ہر مقدمے کی تفصیلات کی انفرادی طور پر تصدیق کی اور پھر سعودی اسپانسر (کفیل) کے ساتھ تصفیہ کے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کی
وہ بتاتے ہیں ”میں نے تمام متعلقہ تفصیلات اکٹھی کیں اور اس سلسلے میں جدہ میں پاکستانی قونصل جنرل خالد مجید سے رابطہ کیا۔ خالد مجید نے ہر ایک کیس میں گہری دلچسپی لی اور تمام قانونی معاملات میں میری مدد کی“
ناصر کہتے ہیں ”ایک بار جب معاہدے کو حتمی شکل دی جاتی ہے تو سعودی حکومت ایک تنفیز/صداد (الیکٹرانک ادائیگی کا کوڈ) تیار کرتی ہے جسے میں کیس کی تفصیلات کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا گروپس میں شیئر کرتا ہوں اور عطیہ دہندگان سعودی حکومت کے ادائیگی کے نظام (صداد) کو براہ راست ادائیگی کرنا شروع کر دیتے ہیں“
واضح رہے کہ صداد سعودی عرب میں الیکٹرانک ادائیگیوں کا ایک مرکزی نظام ہے، جو مملکت میں تمام بینکنگ چینلز پر الیکٹرانک طریقے سے جرمانوں اور دیگر ادائیگیوں کے عمل کو تیز کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان ادائیگیوں کے لیے براہ راست یا بالواسطہ نقد رقم جمع نہیں کرتے ہیں، کیوں کہ عطیہ دہندگان سعودی حکومت کے ادائیگی کے نظام کو اپنی استعداد کے مطابق براہ راست ادائیگی کرتے ہیں
ناصر مکمل ادائیگی کی دستاویزات موصول ہونے کے بعد جدہ میں پاکستانی قونصل خانے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ اس کے بعد قونصل خانہ جیل کے ساتھ مل کر ان دستاویزات پر کارروائی شروع کرتا ہے
تمام کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد قیدی کو جیل سے رہا کر دیا جاتا ہے
ناصر اقبال نے کہا کہ سعودی حکومت پاکستان واپس بھیجے جانے والے تمام قیدیوں کے ٹکٹوں کی ادائیگی کرتی ہے
جدہ میں پاکستانی قونصل خانے کے ترجمان حمزہ گیلانی نے تصدیق کی ہے کہ ناصر اقبال سعودی عرب میں پاکستانی مشن کے ساتھ مل کر یہ فلاحی کام سرنجام دے رہے ہیں
حمزہ گیلانی نے عرب نیوز سے گفتگو میں کہا ’وہ بہترین کام کر رہے ہیں اور قونصل خانے نے ہمیشہ جہاں بھی ضرورت پڑی مدد فراہم کی ہے۔‘
حمزہ گیلانی نے کہا کہ ناصر نے جرمانے اور دیگر قانونی اخراجات کے لیے تمام رقم عطیہ کنندگان کے ذریعے حاصل کی جو براہ راست سعودی حکومت کو صداد نظام کے ذریعے ادا کی جاتی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ قونصل خانے نے انہیں متعلقہ تمام معلومات فراہم کیں
انہوں نے تصدیق کی کہ جرمانے کی ادائیگی کے بعد قونصل خانے کی ٹیمیں قیدی کی رہائی کے لیے درکار ضروری دستاویزات کا بندوبست کرنے میں بھی مدد فراہم کر رہی ہیں۔