سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ساڑھے چار ارب سال سے لے کر اب تک کرہ ارض کی گردش کی رفتار میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے دن طویل ہو رہے ہیں
اگرچہ گردش کی رفتار میں کمی اتنی کم ہے کہ انسان اس کو نوٹس نہیں کرسکتا لیکن اس سے دن کی لمبائی میں فرق ضرور پڑ رہا ہے
’سائنس ڈاٹ او آر جی‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق ڈیڑھ ارب سال قبل ایک دن 24 نہیں بلکہ 18 گھنٹوں کا ہوا کرتا تھا اور 70 ملین سال قبل دن ساڑھے 23 گھنٹوں کا ہوتا تھا
سائنسدانوں کے مطابق اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ہر ایک سو سال بعد دن کی طوالت میں ایک اعشاریہ آٹھ ملی سیکنڈ کا اضافہ ہو رہا ہے
سائنسی جرنل ’پروسیڈنگز آف دا رائل سوسائٹی‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 2740 سالوں میں کرہ ارض کی گردش چھ گھنٹے سست ہوئی ہے، لیکن کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث جیسے جیسے سمندر کی سطح میں اضافہ ہوتا جائے گا ویسے ویسے زمین کی گردش میں کمی ہوگی اور اس ماڈل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرہ ارض کی گردش کی رفتار میں ایک اعشایہ آٹھ ملی سیکنڈ نہیں بلکہ دو اعشاریہ تین ملی سیکنڈ کمی ہونی چاہیے
یہ جملہ کئی بار عالمی کانفرنسوں اور اجلاسوں میں بھی کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ موسمی تبدیلی امیر اور غریب، مرد اور عورت، بوڑھے اور جوان، گورے اور کالے میں فرق نہیں کرے گی، لیکن دنیا بھر میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہی اس کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا
پاکستان کا شمار دس ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جو گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس میں موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں بلکہ صرف اتنا ہی نہیں دو سال قبل پاکستان ان ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آ گیا
پاکستان کو مختلف قدرتی اور انسان کی بنائی ہوئی مشکلات کا سامنا ہے اور انہی مشکلات کے باعث ملک میں لوگوں کو بے گھر ہوکر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑا
عالمی رپورٹس کے مطابق ہر سال تیس لاکھ افراد قدرتی حادثات سے متاثر ہوتے ہیں۔ تیس لاکھ کوئی چھوٹی آبادی نہیں بلکہ ملک کی آبادی کا ایک فیصد سے زیادہ ہے
انڈس ڈیلٹا جو دنیا میں پانچواں بڑا ڈیلٹا ہے، گذشتہ دو دہائیوں میں 92 فیصد سکڑ گیا ہے۔ 92 فیصد! اور اس وجہ سے بارہ لاکھ سے زیادہ افراد انڈس ڈیلٹا سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے
پاکستان میں دیہی علاقوں سے شہری علاقوں اور خاص طور پر ملک کے بڑے شہروں میں جا کر رہائش اختیار کرنے کا عمل پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے آبادی نے ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2025ع تک پاکستان کی نصف آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہوگی
موسمی تبدیلی اور نقل مکانی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ موسمی تبدیلی کے باعث نقل مکانی کا عمل ناقابل تردید ہے اور اکیسویں صدی میں یہ نقل مکانی نہ صرف پاکستان بلکہ بلکہ دنیا بھر میں ہونی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی سے ناقص منصوبہ بندی کے نتائج عوام بھگت رہے ہیں، یہاں تو اس کے اثرات سنگین ہوں گے، جن میں اس وقت مزید شدت آئے گی جب ملک میں سماجی، معاشی، سیاسی اور حتیٰ کے ثقافتی پہلو بھی لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کریں گے
ایک طرف تو پاکستان کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور دوسری جانب زیادہ سے زیادہ افراد بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1950 سے لے کر 2012 تک 62 سالوں میں ملک کی آبادی میں پانچ گنا اضافہ ہوا لیکن شہروں کی جانب رخ کرنے والوں میں دس گنا اضافہ ہوا۔ اب ذرا رکیے اور سوچیے کہ اگلے ڈھائی سالوں میں 220 ملین کی آبادی کا آدھا حصہ یعنی 110 ملین افراد صوبائی دارالحکومتوں میں موجود ہوں گے
’ایڈوانسنگ ارتھ اینڈ اسپیس سائنس‘ کی گذشتہ سال کی تحقیق کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں اضافے سے جنوبی ایشیا میں ہیٹ ویو عام ہو جائے گی
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویٹ بلب ٹمپریچر یعنی زیادہ درجہ حرارت اور زیادہ نمی کا مجموعہ بہت خطرناک ہے۔ زیادہ سے زیادہ ویٹ بلب ٹمپریچر جس میں لوگ کام کر سکتے ہیں وہ ہے 32 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ 35 ڈگری سینٹی گریڈ وہ ویٹ بلب ٹمپریچر ہے جو انسانوں کے لیے حد ہے۔ اس سے زیادہ اگر درجہ حرارت ہوا تو پسینہ بخارات نہیں بنے گا اور انسان کا جسم ٹھنڈا نہیں ہوگا
صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی سے روزگار اور صحت دونوں ہی پر اثر پڑے گا۔ اس وقت بھی 39 فیصد آبادی کثیر جہتی غربت میں مبتلا ہے اور موسمی تبدیلی کے باعث روزگار جانے سے ان کی زندگی اور صحت پر بہت زیادہ اثر پڑے گا
بشکریہ: انڈیپینڈنٹ اردو