وزیراعظم شہباز شریف کے قطر کے دورے سے قبل ہی یہ خبریں گردش میں تھیں کہ شاید اس دورے میں معاشی مدد اور سرمایہ کاری سے متعلق کوئی خوشخبری مل جائے اور دورے کے دوران ہی یہ خبریں ایک طرح سے درست ثابت ہوئیں
لیکن اس دورے کے دوران ایک پُراسرار پرواز کی دوحہ آمد اور 9 گھنٹے قیام نے اس دورے کے حوالے سے کئی خدشات کو جنم دیا ہے
یہ معاملہ اسرائیل کے ہوابازی کے شعبہ سے منسلک رپورٹر ایوی شارف کی ٹویٹس سے آشکار ہوا
واضح رہے کہ ایوی شارف دنیا بھر میں غیرمعمولی فضائی نقل و حرکت پر فلائٹ راڈار کی مدد سے نظر رکھتے ہیں اور بعض اوقات زیادہ تفصیل دستیاب نہ ہونے کی صورت میں فلائٹ راڈار سے ملنے والی تفصیلات کو ٹوئٹر پر شیئر کر کے بین الاقوامی میڈیا کے لیے سوچ بچار کا سامان مہیا کرتے ہیں
ایوی شارف نے وزیرِاعظم شہباز شریف کی قطر میں موجودگی کے دوران وہاں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے اعلیٰ حکام کے زیرِ استعمال رہنے والے ایک طیارے کی موجودگی بھی نوٹ کی
یہ طیارہ وزیرِاعظم شہباز شریف کے طیارے کی موجودگی میں دوحہ اترا، 9 گھنٹے وہیں موجود رہا، جبکہ وزیرِاعظم شہباز شریف کا طیارہ اسرائیلی طیارے کی پرواز کے بعد 9 گھنٹے کے فرق سے اگلے روز صبح واپس روانہ ہوا
چونکہ عرب ممالک میں میڈیا اور معاشرے پر بادشاہتوں کا زبردست کنٹرول ہے، اس لیے کوئی غیر معمولی نقل و حرکت یا ملاقاتیں رپورٹ نہیں ہو سکتیں، اس لیے اس حوالے سے مزید تفصیلات موجود نہیں ہیں
دوسری جانب اسرائیل کا میڈیا قدرے آزاد لیکن ریاستی مفادات کے ساتھ جڑا رہنے والا میڈیا ہے۔ اسرائیل بھی ایک سیکیورٹی ریاست ہے، جہاں سے حساس خبریں میڈیا کو ازخود فراہم کی جاتی ہیں
ایوی شارف اسرائیل میں مضبوط صحافتی وسائل رکھتے ہیں لیکن طیارے کی نقل و حرکت پر ان کا کوئی خبر نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ انہیں جس قدر ضرورت تھی، اس قدر اطلاع عوام تک پہنچا دی گئی
پاکستان تحریک انصاف کی سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ٹویٹس میں پاکستان اور اسرائیل کے طیاروں کی بیک وقت موجودگی کے اتفاق کو اپنی جماعت کے بیانیے سے جوڑا اور کہا کہ کیا دونوں ملکوں کے حکام نے لوگوں کی نظروں سے بچنے کے لیے کسی ایک طیارے میں بیٹھ کر مذاکرات کیے؟
شیریں مزاری نے اپنی ایک ٹویٹ میں سوالیہ انداز میں بیرونی مداخلت سے متعلق بیانیے کو بھی دہرایا۔