بینک کی نوکری ’ڈریم جاب’ سے ’بیگار کیمپ‘ کی طرح کیسے بنی؟

ویب ڈیسک

بینک ملازمت کے حوالے سے محمد وقاص کا تجربہ انتہائی تلخ رہا، یہی وجہ ہے کہ دس سال بینک ملازمت میں گزار کر حال ہی میں انہوں نے اسے خیرباد کہہ دیا ہے

اپنی ملازمت کے دوران محمد وقاص نے کم و بیش بینک کے تمام شعبہ جات میں فرائض سرانجام دیے، وہ آپریشنل مینیجر بھی رہے

محمد وقاص اپنہ تجربہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’’بینک کی ملازمت بہت کچھ سکھاتی ہے لیکن اسے مستقل ذریعہ معاش نہیں بنانا چاہیے کیونکہ مسلسل کام آپ کی صحت کو متاثر کرتا ہے اور دباؤ اتنا ہوتا ہے کہ بظاہر پر سکون نظر آنے والے بینک افسران اندر سے شدید خوف کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ جاب سکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہے“

انہوں نے کہا ”بینک کی ملازمت اب ڈریم جاب نہیں رہی۔‘‘

واضح رہے کہ ایک وقت میں بینک ملازمت کو خوشحالی، وقار اور عزت و مرتبے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بینک اپنے ملازمین کو تنخواہ کے علاوہ بھی بہت سی مراعات سے نوازتے تھے، یہی وجہ تھی کہ بینک ملازمت ہر نوجوان کا خواب ہوتی تھی

تجارتی سرگرمیوں کے عروج کے ساتھ ہی بینکاری کے شعبے میں بھی ترقی ہوئی۔ ایک شہر میں ایک ہی بینک کی کئی کئی برانچیں کھل گئیں۔ اس سے جہاں ملازمتوں کے وسیع مواقع میسر آئے وہیں بینکاری کے جدید طریقوں اور مسابقت کی وجہ سے ملازمین کو حاصل سہولیات، تحفظ اور مراعات بھی ختم ہو گئیں

بینک جو کبھی دو بجے بند ہو جایا کرتے تھے، اب صبح نو بجے سے شام ساڑھے پانچ بجے تک صارفین کے لیے کھلے رہتے ہیں اور عملہ اپنا کام ختم کر کے ہی گھر جا سکتا ہے بصورت دیگر کسی کسٹمر کی ناراضگی پر متعلقہ بینک ملازم کو خاصی سبکی اٹھانی پڑتی ہے

محمد وقاص کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ ایم بی اے کرنے کے بعد ’دور کے ڈھول سہانے‘ کی مصداق ان کا خواب تھا کہ کسی بینک میں ملازمت مل جائے اور وہ صبح اٹھ کر ٹائی کوٹ لگا کر بینک جائیں اور ایک بہترین کارپوریٹ ماحول میں کام کرتے ہوئے اپنا کیریئر بنائیں اور پیسہ کمائیں

محمد وقاص کہتے ہیں کہ اپنی خواہش کے مطابق نوکری بھی مل گئی اور اس شوق میں کہ آگے بڑھنا ہے اور باہر کے ماحول سے بینک کا ماحول بھی بہتر محسوس ہوا، سو پہلا مہینہ بڑا اچھا گزرا۔ پہلا دھچکا تب لگا جب پتہ چلا کہ ’بینک میں آنے کا وقت تو ہوتا ہے لیکن واپس گھر جانے کا کوئی وقت نہیں ہوتا‘

انہوں نے کہا ”عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ بینک کی ملازمت ایک آسان کام ہے اور بینک کے بہترین ماحول میں ملازمین ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت کام کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ حقیقت اس کے سو فیصد برعکس ہے“

محمد وقاص کے بقول، ضوابط اتنے سخت بنا دئیے گیے ہیں کہ ایک نارمل انسان کے لیے اس پر پورا اترنا ممکن ہی نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ بینکوں میں بونس اور دیگر مراعات کا حصول اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ آپ اپنی طرف سے پوری محنت کے باوجود اسے حاصل نہیں کر سکتے

وہ کہتے ہیں ’’یہ اب ٹیم ورک سے منسلک ہے۔ ٹیم کے کسی رکن کی کوتاہی سے باقی تمام کی کامیابی اور محنت کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بینک ملازمین کے درمیان ذاتی مخاصمت کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے‘‘

محمد وقاص کے مطابق بینک میں کامیاب ملازمت وہی کر سکتا ہے، جسے بات گھما پھرا کر کرنی آتی ہو چاہے وہ کسٹمر کے ساتھ ہو یا پھر اعلیٰ افسران کو ڈیل کرنا ہو

بینکاری کا شعبہ کیونکہ براہ راست عوام سے تعلق رکھتا ہے تو اس میں کسی بھی صارف کا اطمینان کسی بھی بینک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بینک نو سے پانچ بجے تک کام نہیں کرتے بلکہ بینکوں نے ایسے افسران بھی تعینات کر رکھے ہیں، جن کا کام خاص کسٹمرز کو ہمہ وقت ڈیل کرنا ہوتا ہے تاکہ بینک کا ٹرن اوور زیادہ سے زیادہ ہو

خالد مشتاق بھی ایک بینکار ہیں اور کم و بیش آٹھ سال سے اس شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اسلام آباد اور دیگر شہروں میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کے خیالات بھی وقاص سے مختلف نہیں

خالد کا کہنا ہے کہ بینک میں ملازمت اس لیے اچھی لگتی تھی کہ بہترین لباس پہن کر ایک اچھی شخصیت بن کر وائٹ کالر جاب کے لیے جانا ہی باقی شعبوں سے ممتاز کر دیتا تھا۔ لیکن جب کام کا بوجھ پڑا تو سمجھ آیا کہ حقیقت کچھ اور ہے

خالد کے مطابق اس شعبے میں ترقی اور پیسہ کمانے کے امکانات موجود ہیں لیکن اس کے لیے بہت زیادہ محنت اور ڈسپلن درکار ہے۔ خاص طور پر سیلز کے شعبہ میں مارکیٹنگ کے گُر سے اچھی طرح واقف ہونا انتہائی ضروری ہے

وہ کہتے ہیں ’’بینک ملازمت میں جاب سیکیورٹی بالکل بھی نہیں ہے۔ آپ بے شک مہینے اور سال کے بہترین ملازمت کے ایوارڈ لے چکے ہوں کوئی ایک شکایت یا کوڈ آف کنڈکٹ کی معمولی سی خلاف ورزی آپ کے کیریر پر فل اسٹاپ لگا سکتی ہے۔‘‘

خالد مشتاق کا کہنا ہے کہ بینک کا اصل کام تو پانچ بجے کے بعد شروع ہوتا ہے کیونکہ جب صارفین کا آنا بند ہوتا ہے تو بینکار اپنا آپریشنل کام شروع کرتے ہیں، جو رات کے بارہ بجے تک بھی جاری رہ سکتا ہے

بینک ملازمت کے حوالے سے کارپوریٹ قوانین کے ماہر ایڈووکیٹ حسن رشید صدیقی کا کہنا ہے ”بینکنگ کا پورا نظام طے شدہ اہداف کے حصول کی تگ و دو میں چلتا ہے۔ اگر آپ ایسے علاقے میں تعینات ہیں، جہاں آپ کی واقفیت زیادہ ہے تو ہدف پورا کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اگر آپ کسی بڑے شہر میں ہیں تو ہدف مشکل ہو جاتا ہے“

بینک ملازمین اپنی ملازمت کے وقت جس کنٹریکٹ پر دستخط کرتے ہیں، وہ اتنا تکنیکی ہوتا ہے کہ نئی نئی ملازمت کی خواہش میں اس میں شامل شرائط اور ذمہ داریاں بظاہر معمولی لگتی ہیں لیکن بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے

ایڈووکیٹ حسن رشید صدیقی کہتے ہیں ”جہاں تک اضافی وقت میں کام کرنے کا تعلق ہے تو لیبر قوانین اس حوالے سے واضح ہیں لیکن پاکستان میں دفاتر کے اندر آپریشنل معاملات میں ان کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کوئی ملازم ان معاملات کو لیبر قوانین کے تناظر میں متعلقہ فورم تک لے کر جائے تو اس کا ازالہ ہو سکتا ہے لیکن بینک ملازمت میں ملازمت کے معاہدے کی منسوخی کا اختیار بھی بینک کے پاس ہی ہوتا ہے۔ اس لیے بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ بینک ملازمین نے بینک انتظامیہ کے خلاف ملازمین کے حقوق کے حوالے سے کوئی مقدمہ درج کروایا ہو“

دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے سینیئر حکام کے مطابق کمرشل بینکوں اور ان کے ملازمین کے مابین ملازمت کے معاملات اس کی عملداری میں نہیں آتے۔ کسی شکایت کی صورت میں یا ملازمت کے قواعد و ضوابط اور مراعات کے بارے میں ریلیف صرف عدالتوں سے مل سکتا ہے اور بینک ملازمین اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں

تاہم حسن رشید صدیقی کے مطابق ملازمین کو عدالت سے ریلیف بھی اسی صورت مل سکتا ہے، جب ان کے نوکری کے معاہدوں میں اس بات کی گنجائش ہو جو کہ زیادہ تر معاملات میں نہیں ہوتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close