فروری 2007 میں جب سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے نے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار احمد چوہدری کا ہٹا دیا تھا، تو ملک کی وکلاء برادری نے ایک احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھی تھی، بعد ازاں اس میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہو گئیں
اسی تناظر میں پاکستانی فوج کے چند سبکدوش سینیئر افسران نے جنوری 2008ع میں پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی
تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق اس کا مقصد مسلح افواج کے امیج کے تحفظ، فوجی حکمران پرویز مشرف کی برطرفی اور عدلیہ کو تین نومبر سے پہلے کی پوزیشن پر بحال کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا تھا
پاکستان ایکس سروس مین سوسائٹی نے پہلا اجلاس اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں کیا، جس میں دو سو سے زائد سابق فوجیوں نے شرکت کی،جن میں نہ صرف کئی ریٹائرڈ افسران بلکہ 1965ع کی جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجی بھی شامل تھے
شرکا میں ایئر مارشل (ر) اصغر خان، ایئر مارشل نور خان اور تمام رینک پر مشتمل بہت سے ریٹائرڈ اہلکار شامل ہوئے تھے
پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن نے اپنے اجلاسوں میں چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کی بحالی کے لیے وکلا کی تحریک کی حمایت کی اور اسی سال جون میں اس سلسلے میں ہونے والی لانگ مارچ میں حصہ بھی لیا
لیکن بعد میں پاکستان ایکس سروس میں ایسوسی ایشن کو بین الاقوامی طور پر وسعت دینے کے مقصد کے تحت اس کا نام تبدیل کر کے ویٹرنز آف پاکستان رکھ دیا گیا تھا
اِس وقت ویٹرنز آف پاکستان سابق وزیر اعظم عمران خان کی حمایت میں بھی پیش پیش رہی ہے اور ان کی وزارت عظمیٰ سے معزولی کے خلاف چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط بھی تحریر کر چکی ہے
یہی وجہ ہے کہ وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق وزارت دفاع نے ویٹرن آف پاکستان نامی تنظیم کے حوالے سے کہا ہے کہ اس کی کوئی ’سرکاری حیثیت‘ نہیں ہے اور ایسی تنظیم بنانے کے لیے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی منظوری لازمی ہے
واضح رہے کہ اس وقت وفاقی وزارتِ دفاع کا قلمدان مسلم لیگ نون کے خواجہ آصف کے پاس ہے
ویٹرنز آف پاکستان اس وقت سیلاب متاثرین کے حوالے سے بھی سرگرم ہے۔ اس تناظر میں وفاقی وزارت دفاع نے متاثرین سیلاب کے لیے چندے و عطیات، خیراتی مقاصد یا اپنے خیالات کی ترویج کے لیے فنڈز کا تقاضہ کرنے والی پاکستان فوج کے سابق ملازمین کی تنظیموں کی سرگرمیوں سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے
جمعے کی شام ایک بیان میں وفاقی وزارت دفاع نے اس سلسلے میں جاری کیے گئے ایک بیان میں خصوصا ویٹرنز آف پاکستان یا ایکس سروس مین سوسائٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ”سابق فوجیوں کی سوسائٹیوں کے طور پر کام کرنے یا کام کا دعویٰ کرنے والی ایسی انجمنوں کی سرگرمیوں کو تسلیم یا ان کی ترویج نہیں کی جاتی“
بیان میں کہا گیا ہے ”پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے ایسی ’نام نہاد سابق فوجیوں کی سوسائٹیاں‘ جو پاکستان کی مسلح افواج یا اس کی اکائیوں کے ساتھ وابستگی کا غیر قانونی دعویٰ کرتی ہیں، کو تسلیم کیا گیا ہے نہ ایسی سرگرمیوں کی اجازت ہے“
وزارت کے بیان میں کہا گیا ہے ”مشاورت یا رہنمائی کے لیے وزارت دفاع کے دفاتر میں پالیسی دستیاب ہے, جس کے رہنما اصولوں کی تعمیل نہ کرنے والے افراد کی کوئی بھی تنظیم مجرم ہوگی اور ایسے افراد اور تنظیم کو تعزیراتی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا“
دوسری جانب وزارت دفاع کے ذرائع نے بتایا کہ ویٹرن آف پاکستان نامی تنظیم کی کوئی ’سرکاری حیثیت‘ نہیں ہے اور ایسی تنظیم بنانے کے لیے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی منظوری لازمی ہے
ذرائع نے مزید بتایا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کی تنظیم کا سبکدوش ہونے والے ملٹری اہلکاروں کی فلاح و بہبود سے متعلق ہے اور ایسی تنظیمیں کسی بھی حالت میں کسی ’سیاسی پلیٹ فارم‘ کے طور پر کام نہیں کر سکتیں۔